دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: کربلا کے واقعہ کا قوام مرد اور عورت، دونوں سے ہے. کربلا کے حادثے ميں مرد اور عورت دونوں حاضر ہيں اور اس ميں دونوں کا کردار ہے
محرم الحرام سنہ 1428 کي مناسبت سے آپ کے بياناتکربلا کے واقعہ کا قوام مرد اور عورت، دونوں سے ہے. کربلا کے حادثے ميں مرد اور عورت دونوں حاضر ہيں اور اس ميں دونوں کا کردار ہے
بسمہ تعالي
ہم محرم اور عاشورا کے قريب تر ہوتے جا رہے ہيں؛ ہجري قمري سال شروع ہونے کو ہے. ايسا مہينہ جس کي دسويں تاريخ کو شھيد ہونے والي شخصيت، نجات کے تمام وسيلے اپنے ساتھ رکھتي ہے. ہدايت کا چراغ بھي ہے اور کشتي نجات بھي. جس طرح حضرت ابي عبداللہ امام حسين عليہ السلام کشتي نجات ہيں اسي طرح باقي تمام ائمہ سلام اللہ عليھم اجمعين بھي کشتي نجات ہيں. مرحوم شيخ آية اللہ جعفر تستري کا عقيدہ جو آپ نے روايات سے اخذ کيا ہے، يہ ہے کہ يہ نجات کي کشتي، طوفانوں ميں بہت آساني سے انسان کو ساحل تک پہنچا کر اسے نجات دلا سکتي ہے. تمام ائمہ عليھم السلام نجات کي کشتي ہيں ليکن يہ کشتي (يعني حضرت امام حسين عليہ السلام)، لجج غامرہ (يعني موت کے گردابوں) ميں بہت آساني سے انسان کو بچا کر اسے نجات دلا سکتي ہے. دوسري طرف سے تمام ائمہ عليھم السلام جنت کے دروازے ہيں، حضرت ختمي مرتبت سے لے کر، اور حضرت بي بي زھراء سلام اللہ عليھا سے لے کر دوسرے تمام ائمہ عليھم السلام جنت کے دروازے ہيں. حضرت ابا عبداللہ عليہ السلام بھي جنت کا دروازہ ہيں. جنت ميں ايک دروازہ ہے جس کا نام «باب الحسين» ہے جو بہت وسيع ہے اور بہت سے افراد کو جنت ميں داخل کر سکتا ہے اور بہت لوگ اس دروازے سے جنت ميں داخل ہو سکتے ہيں.
امام حسين عليہ السلام جس کو چاہيں جنت ميں لے جا سکتے ہيں. نہ صرف عزاداري سے، نہ صرف رونے سے، نہ صرف رلانے سے، نہ صرف ماتم سے، نہ صرف مصائب کے اظہار کرنے سے، نہ صرف شعائر حسيني کي تعظيم کرنے سے بلکہ «تباکي» (يعني رونے والي شکل بنانے) سے انسان جنت ميں داخل ہو سکتا ہے. يہ حضرت ابا عبداللہ عليہ السلام کے باب کي وسعت ہے. آپ کي کشتي بھي دوسري کشتيوں سے مختلف ہے اور آپ کا باب بھي دوسرے دروازوں سے مختلف ہے. آپ سے متوسل ہونے کي بھي ايسي خاصيت ہے کہ کوئي بھي کسي طريقے سے بھي آپ عليہ السلام سے متوسل ہو کر، اپني نجات کا وسيلہ فراہم کر سکتا ہے.
ياد رکھنا چاہئے کہ حضرت امام حسين عليہ السلام کے لئے تعزيہ اور عزاداري کي جڑيں، انسانيت کي تاريخ سے جڑي ہوئي ہيں. حضرت آدم ابوالبشر کي کہاني ميں ہم سب نے پڑھا ہوا ہے کہ جب جبرئيل، اسماء خمسہ کو آپ کے لئے بيان کر رہا تھا، جب حضرت امام حسين عليہ السلام کے مبارک نام پر پہنچا تو حضرت آدم عليہ السلام نے جبرئيل سے پوچھا کے جب پانچواں نام ليا گيا تو بہت مغموم محسوس کر رہا ہوں اور ميرا دل منقلب ہوا جا رہا ہے. اس کي کيا وجہ ہے؟ اس نام ميں کوئي ايسي خاصيت ہے جس سے ميرا دل ٹوٹا جا رہا ہے؟ اس وقت حضرت جبرئيل امين نے مجلس پڑھي اور فرمايا: «صغير ھم يميتہ العطش و کبيرھم جلدہ منکمش». ان کے چھوٹے معصوم بچے پياس سے مارے جائيں گے اور ... يہ کہاني خلقت کے ابتدائي ايام کي ہے. لہذا عزاداري کا آغاز، حضرت آدم عليہ السلام کي خلقت سے ہوتا ہے. اور اس کا تعلق صرف آج يا کل سے نہيں ہے. اور جو کچھ حضرت امام صادق اور امام رضا عليھما السلام کے زمانوں کے بعد اور علماء اور متشرعين اور اھل بيت صلوات اللہ عليھم اجمعين کے محبين کي سيرت اور روش اس پر بنائي گئي ہے وہ جمع ہو کر عزاداري کرنا اور مجالس کي تشکيل دے کر اسلام کے مسائل کو بيان کرنا ہے، چاہے نثري صورت ميں يا شعر کي صورت ميں.
تاريخ ميں موجود ہے کہ محرم کي پہلي تاريخ سے حضرت امام رضا عليہ السلام کو کبھي ہنستا ہوا نہيں ديکھا جاتا. يا حضرت امام صادق عليہ السلام کے احوالات ميں بھي اسي طرح نقل کيا گيا ہے. يہ وہ راہ و روش ہے جو ائمہ معصومين عليھم السلام نے اسلام کي بقاء، ظالم اور ستمگر جو بھي ہو اور جہاں پر بھي ہو اس سے نفرت کے لئے اور مظلوم سے محبت اور ارادت کے اظھار کے لئے، ہميں سکھائي ہے. شھيد مطہري (قدس سرہ) کے بقول، مظلومين پر رونا، ان پر ہونے والے ظلم کي وجہ سے ہے. ہمارا يہ رونا، ان سے ہماري محبت اور عشق کا اظہار ہے. نيک لوگوں سے محبت کرتے ہيں اور حضرت ابا عبداللہ امام حسين عليہ السلام سے زيادہ نيک کون ہو سکتا ہے؟ اور آپ کے اصحاب سے زيادہ نيک صحابي کہاں مليں گے؟ «ان الحسين عليہ السلام سيد الشھداء و اصحابہ سادة الشھداء». حضرت امام حسين عليہ السلام تمام شھداء کے آقا اور ان سے برتر ہيں اور آپ کے صحابي تمام شھداء سے برتر ہيں.
کون سا جاگتا ضمير ہو گا جو بني اميہ کے اتنے ظلم ديکھنے کے با وجود بھي اس کا دل نہ ٹوٹے؟ انسان کا دل مظلوم کے لئے ٹوٹتا ہے. اور جس شخص پر ظلم کيا گيا ہو اس سے ہمدردي کرتا ہے. اس حالت کا اظہار کبھي رونے سے ہوتا ہے اور کبھي دوسري صورتوں ميں ظاہر ہوتي ہے. ايسي حالت ميں انسان کبھي اختيار ہاتھ سے دے بيٹھتا ہے اور اس سے ايسے پسنديدہ اور مطلوب اعمال سر زد ہوتے ہيں جس طرح حضرت زينب ( سلام اللہ عليھا) نے انجام ديا تھا. «فنطحت جبينھا بمقدم المحمل» اس حادثہ کو ديکھنے کے بعد، يوں نہيں ہے کہ حضرت زينب کو اپنے عمل کے بارے ميں علم نہ تھا کہ اپنا سر محمل پر پٹخ رہي ہيں، يہ تو صرف بعض لوگوں نے اس قسم کي باتيں بنائي ہيں. آپ عالمہ غير معلمہ ہيں. آپ حضرت اميرالمؤمنين عليہ السلام کے مکتب کي تربيت شدہ ہيں. اپنے بھائي کے کٹے ہوئے سر کو ديکھ کر حضرت زينب کيسے صبر کر سکتي تھيں؟ آپ کو اس کام پر فخر تھا. آج ہمارا يہ فرض بنتا ہے کہ ان جذبات کو صحيح طريقوں پر ہدايت کي جائے. ان کي صحيح تحليل کي جائے اور اس کو زندہ رکھا جائے. صحيح سندوں سے ظلم کي مخالفت اور مظلوم کي حمايت کو آج کي انساني دنيا ميں احياء کيا جائے. امام حسين عليہ السلام کي عزاداري ميں کبھي انسان اپنا سر پيٹتا ہے اور اس کے سر ميں ورم بھي آ جاتا ہے. يہاں پر «لا ضرر و لا ضرار في الاسلام» کے قانون کو لاگو کرنے کا کوئي معني اور مفھوم نہيں ہے. حضرت فاطمہ سلام اللہ عليھا يا حضرت امام حسين عليہ السلام کي عزاداري ميں اگر ہم متاثر ہو کر اپنا ماتھا پيٹتے ہيں، يہاں تک کہ متورم ہو جاتا ہے، تو کيا يہاں پر شريعت کي مخالفت ہوئي ہے؟ حضرت ابا عبداللہ الحسين عليہ السلام کي محبت اور آپ سے والہانہ عشق کي وجہ سے ميں تمام چيزيں بھول جاتا ہوں اور ميرا اپنے آپ پر کوئي اختيار نہيں رہتا.
فقہي لحاظ سے بھي اس ميں بہت بحث کي جا سکتي ہے جس کا اب يہاں پر ذکر نہيں کرنا چاہتے. بلکہ کہنا يہ چاہتے ہيں کہ يہ ايک جذباتي اور احساساتي حالت ہے. يہ محبت ہے، اور اس کو روکنا نہيں چاہئے. اپنے جذبات کے اظہار کو نہيں روکنا چاہئے. اجازت ديني چاہئے کہ يہ پاک انسان، اپنے پاک جذبات کا اظہار کر سکيں. ان سب باتوں کا تعلق ہماري ابتداء ميں بيان کي گئي باتوں سے ہے جو ہم نے باب الحسين عليہ السلام کے سلسلے ميں بيان کي ہيں. ان کو تباکي کرنے ديں، ان کو رونے والوں کي طرح شکل بنانے ديں. حضرت ابا عبداللہ الحسين کا باب بہت وسيع باب ہے. «من بکي او ابکي او تباکي فلہ الجنة» حضرت امام حسين عليہ السلام کي مظلوميت پر رونے کا بہت ثواب ہے. اور تباکي کا معني يہي ہے کہ ہم رونے والوں کي شکل بنائں اور تاثر کي وجہ سے اپنا سر نيچے کر کے بيٹھ جائيں، محبت کا اظہار کريں، عزاداري کا اظہار کريں. يہ اہل بيت عليھم السلام کي روش رہي ہے. جس طرح حضرت امام خميني سلام اللہ عليہ نے اشارہ فرمايا ہے کہ: اسي روش کي پاسباني کي جائے. ان طريقوں کي پاسباني کرنے کا جديديت اور منورالفکري سے کوئي تعلق نہيں ہے. اگر کوئي اپني اصالت اور اپني ہويت کي حفاظت کرتا ہے تو کيا يہ منورالفکر نہيں ہے؟! سنت اور تجدد کے مفاہيم کو صحيح سمجھنا چاہئے. اپنے ديني اقدار اور زمانے کے مسائل اور مشکلات پر توجہ دينا، يہ خود منورالفکري کے عين مطابق ہے. کيا امام خميني سلام اللہ عليہ سے زيادہ کوئي منورالفکر مل سکتا ہے جنھوں نے سياسي مسائل اور اسلامي فقہ کے تمام ابعاد ميں گہرائي کے ساتھ پوري دقت فرمائي ہے. آپ زيارت غديريہ (بہت مفصل زيارت جو حضرت امام علي النقي عليہ السلام پڑھا کرتے تھے) کو نجف اشرف ميں کھڑے ہو کر پڑھا کرتے تھے. يہ زيارت ايسي زيارت ہے جس کو پڑھنے کے لئے تقريباً ايک گھنٹہ لگ جاتا ہے. يہي امام خميني سلام اللہ عليہ ہيں جو فرماتے ہيں کہ: روائتي عزاداري کي حفاظت کرني چاہئے. آج جو کچھ ہمارے پاس ہے سب محرم اور صفر کے صدقے سے ہے. عزاداري کو اہميت ديني چاہئے. ليکن ديکھنا چاہئے کہ کيا کہہ رہے ہيں اور کيا سن رہے ہيں. منبر حسيني اور مصائب اور مجالس ميں ايسے نکات پر زيادہ زور دينا چاہئے جو مخاطبين کي توجہ حاصل کر سکے، خاص طور پر نئي نسل کي توجہ.
يہ بات بالکل ٹھيک ہے کہ اگر حضرت زينب سلام اللہ عليھا نہ ہوتيں تو حضرت امام حسين عليہ السلام کي شہادت کي قدر معلوم نہ ہوتي؛ بنو اميہ کي تبليغي طاقت اتني زيادہ تھي کہ کسي کو حضرت امام حسين عليہ السلام کي شہادت کي خبر تک نہ ہونے ديتي. اگر بھي کسي کو مع
کربلا کے حادثے سے حاصل ہونے والے سبق کو فصحاء، علماء، مفکرين، قلم چلانے والے، اور يونيورسٹي اور حوزہ کے دانشور حضرات کو بيان کرنا چاہئے تا کہ لوگ، عاشورا کي عظمت اور حضرت ابا عبداللہ الحسين عليہ السلام کي شخصيت سے زيادہ واقف ہو جائيں.
ايک دن اسي مقدس مقام پر ہم نے کربلا کے واقعہ سے حاصل ہونے والے سبق کو بيان کيا اور وفا، اطمينان اور صفا کے موضوع، کي طرف اشارہ کيا تھا.
آج کربلا کے حادثے سے دوسرے حاصل ہونے درسوں کي طرف اشارہ کرنا چاہتے ہيں: ان ميں سے پہلا درس يہ ہے کہ کربلا کے واقعہ کا قوام مرد اور عورت، دونوں سے ہے. کربلا کے حادثے ميں مرد اور عورت دونوں حاضر ہيں اور اس ميں دونوں کا کردار ہے. ايک کا شھادت سے اور دوسري کا اسارت سے. اگر اللہ تعالي کا ايک طرف سے ارادہ يہ تھا کہ امام حسين عليہ السلام کو شھيد ہوتا ہوا ديکھے تو دوسري طرف سے اس کا ارادہ يہ بھي تھا کہ حضرت زينب، ام کلثوم، سکينہ، رباب اور دوسري خواتين کو اسير ہوتا ہوا ديکھے. «ان اللہ قد شاء ان يراھن سبايا» اور يہ بات بالکل ٹھيک ہے کہ اگر حضرت زينب سلام اللہ عليھا نہ ہوتيں تو حضرت امام حسين عليہ السلام کي شہادت کي قدر معلوم نہ ہوتي؛ بنو اميہ کي تبليغي طاقت اتني زيادہ تھي کہ کسي کو حضرت امام حسين عليہ السلام کي شہادت کي خبر تک نہ ہونے ديتي. اگر بھي کسي کو معلوم ہوتا تو يہ کہہ ديا جاتا کہ وقت کي حکومت کے خلاف قيام اور بغاوت کي ہے. ليکن يہ زينب اور ام کلثوم سلام اللہ عليھما اور حضرت ابا عبداللہ عليہ السلام کي دوسري صاحبزادياں ہيں، جنھوں نے، جہاں پر بھي تقرير کي ہے، عوام کے عقلي اور جذباتي ضمير کو جھنجوڑا ہے. حضرت زينب سلام اللہ عليھا کا بازار کوفہ ميں ارشاد فرمايا ہوا خطبہ ملاحظہ فرمائيے: «يا اھل الغدر و الخطر يا اھل الکوفہ اَ ما تدرون اي کبد لرسول اللہ افرضتم». ملاحظہ فرمائے اس خاتون نے کيسے عقل اور عطوفت کو جمع فرمايا ہے؟ کيسے عقلانيت اور جذبات کو جمع کر دکھايا ہے؟ آپ فرما رہي ہيں: اے جھوٹے اور دھوکہ بازو! دھوکہ دينا انسانيت اور عقل کي مخالفت ہے. اے جھوٹ اور دھوکہ باز لوگو! ... يہاں پر حضرت زينب سلام اللہ عليھا نے ان کي عقلانيت کي ضمير اور انسانيت کو مخاطب قرار ديا ہے. «اي کبد لر سول اللہ افرضتم» کيا تم کو معلوم ہے کہ حضرت پيغمبر کا کون سے جگر گوشہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ديا ہے؟! يہاں پر ان لوگوں کے جذباتي ضمير کو جھنجوڑا ہے. يزيد بن معاويہ کے دربار ميں تاريخي واقعات کو گواہ بنا کر فرماتي ہيں کہ: «اَ من العدل يابن الطلقاء تخديرک حرائرک و امائک و بنات رسول اللہ سبايا» تمہارا شمار تو ضد انقلاب لوگوں ميں ہوتا تھا، تم تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي مخالفت کيا کرتے تھے، تم تو انسانيت کے مخالف تھے، اور اگر ہماري جد امجد کا لطف اور آپ کي عنايت نہ ہوتي تو تم اب بھي جہالت اور وحشيوں کي زندگي گزار رہے ہوتے. «انتم الطلقاء»، «اَ من العدل يابن الطلقاء ...» يہ حضرت زينبت کي عدالت خواہي کا نعرہ ہے اور انسانيت کے حقوق کي طرفداري ہے. اے يزيد تو نے اپني کنيزوں کو تو پردوں ميں بٹھايا ہوا ہے حالانکہ پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي عترت کو، نامحرموں کے دربار ميں کھلے سر اسير بنا کر حاضر کيا ہوا ہے! ديکھئے کتني خوبصورتي سے تاريخ، عقل اور جذبات کو ايک دوسرے کے ساتھ اکٹھا کر ديا ہے.
کربلا کے حادثے ميں مرد اور خواتين ايک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہيں. ايک زھير اور اس کي بيوي کو ديکھئے، دوسرا حبيب ابن مظاھر اور اس کے غلام کو ديکھئے. کربلا جا کر حضرت ابا عبداللہ عليہ السلام کي مدد کے لئے جانے کي غرض سے حبيب ابن مظاہر نے اپنا گھوڑا، غلام کو دے کر شہر سے باہر روانہ کر ديا اور فرمايا وہاں پر انتظار کرنا ميں آ جاؤں گا. کيونکہ پورا شہر بني اميہ اور عبيداللہ بن زياد کے سپاہيوں کے قبضے ميں تھا اور کسي کو باہر جانے کي اجازت نہيں ديتے تھے. کچھ دير گزر جانے کے بعد غلام نے ديکھا کے اس کے آقا، حبيب بن مظاہر کو دير ہو گئي ہے تو غلام نے گھوڑے کے سر اور اس کي گردن پر ہاتھ پھير کر کہا: اے ميرے آقا کے گھوڑے! گھبراؤ نہيں! اگر ميرے آقا حبيب ابن مظاہر نہ بھي آئے تو ميں خود تمھاري پيٹھ پر سوار ہو کر حضرت امام حسين عليہ السلام کي مدد کے لئے چلے جائيں گے. اس گفتگو سے کون سا مقصد اور کون سي ذھنيت ظاہر ہوتي ہے. يہ کون سا مکتب ہے جو حضرت امام حسين عليہ السلام نے ايجاد فرمايا ہے.
کربلا کے حادثے ميں مرد اور خاتون دونوں موجود ہيں. اگر تاريخ کا ملاحظہ کيا جائے تو ايک دوسرا سبق بھي حاصل ہوتا ہے اور وہ يہ کہ شہداء کو دفن کرنے ميں، خواتين، مردوں پر مقدم تھيں. (ہمارا عقيدہ يہ ہے کہ) خواتين بھي انسانيت ميں مردوں کے برابر ہيں. بعض نا آگاہ افراد کو (ہماري اس بات پر) غصہ آ جاتا ہے. کيوں؟ فقہي بحث ميں غصہ کرنے کي کيا ضرورت ہے؟ ہم نے خدا نخواستہ کہيں پر يہ تو نہيں کہہ ديا کہ بت کي پوچا کي جائے، ہم نے تو صرف اتنا کہا ہے کہ مرد اور خواتين کي انسانيت ايک جيسے اور برابر ہے. حتي کہ خواتين، شہداء کو دفن کرنے ميں مردوں پر مقدم تھيں مقدم تھيں. کربلا کے حادثے کے بعد بني اسد کے مرد، شہداء کے اجساد کو دفن کرنے کے لئے نہيں آ رہے تھے، خواتين نے کہا: اگر آپ مردوں کو ڈر لگتا ہے تو ہم جا کر ان کو دفن کرتي ہيں اور اس کلام سے مردوں کو اس کام پر تيار کيا. اسلامي نظريہ ميں، اس حرکت کو ہمارے افکار کي بنياد قرار ديا جانا چاہئے. اسلامي فقہ ميں، اسلامي اخلاق ميں اور معاشرتي برتاؤ ميں بھي اس فکر کا کليدي کردار ہونا چاہئے.
کربلا کے حادثے ميں، حضرت رباب فرماتي ہيں: ميں چھاؤں ميں نہيں جاؤں گي،کيونکہ ميرے سر کے تاج، کا جنازہ تپتي دھوپ ميں پڑا رہا تھا. تاريخوں ميں آيا ہے کہ حضرت رباب نے ايک سال کربلا ميں گرم دھوپ کے سامنے عزاداري ميں گزار ديا.
ہم ان واقعات کو منبر پر تو بيان کرتے ہيں ليکن بعد ميں کہتے ہيں کہ عورتيں بے وفا ہوتي ہيں! خواتين کو کچھ نہيں جانتيں! اگر يہ لوگ ايسي باتيں جان بوجھ کر کرتے ہيں تو ان کے منہ کو آگ سے بھر دينا چاہئے اور لاعلمي کي وجہ سے ايسي باتيں کرتے ہيں تو اللہ تعالي سے ان کے لئے عقل اور علم کو طلب کرنا چاہئے. يہ عورت کي وفا ہے. کيا اس سے زيادہ بھي کہيں پر کوئي وفاداري مل سکتي ہے؟ ايک سال تپتي دھوپ ميں بيٹھي رہي اور فرمايا ميں يہاں سے چھاؤں ميں نہيں جاؤں گي. حضرت زينب سلام اللہ عليھا نے فرمايا: ايک سائبان تيار کروا ديتے ہيں. ليکن آپ نے فرمايا: سائبان کي ضرورت نہيں ہے. حضرت ابا عبداللہ کا جسم اطہر گرم دھوپ ميں پڑا رہا تھا اور آپ ميرے لئے سائبان بنانا چاہتے ہيں؟
يہ ايک سبق ہے جس کو پوري فقہ ميں مد نظر قرار دينا چاہئے. نہ يہ کہ منبر پر جا کر يہ سب کچھ تو بيان کيا جائے ليکن بعد ميں بھول جائيں. کيا يہ صحيح ہے کہ ايک ايسي روايت کي طرف استناد کيا جائے جو واقعيت سے زيادہ جعلي اور بناوٹي ہونے سے زيادہ قريب تر ہے اور شيعہ حضرات نے بھي اس کو نقل نہيں فرمايا ہے. اس ميں آيا ہے کہ حضرت ختمي مرتبت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: «اخروھن کما اخرھن اللہ» خواتين کو پيچھے چھوڑ دو جس طرح اللہ تعالي نے انہيں پيچھے چھوڑ ديا ہے.
جب کہا جائے کہ حضرت پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے کہ «اخروھن ...» تو اس ارشاد کے مطابق، عورت نہ قاضي، نہ مرجع تقليد، نہ حاکم اور نہ ہي ملک کي صدر کچھ نہيں بن سکتي ہے. کيونکہ اللہ تعالي نے ان کو پيچھے کر ديا ہے!
تو پھر «المؤمنون و المؤمنات، و المسلمين و المسلمات، و المصدقين و المصدقات» کا کيا مطلب ہے؟ کيوں ايک عام شخص کي بات جو مرسل بھي ہے اور خود اھل سنت برادران کي نظر ميں بھي اس کي کوئي سنديت نہيں ہے اور شيعہ حضرات نے تو بالکل اس کو نقل ہي نہيں کيا ہے. اس کي بات کو مان ليا جائے. تو پھر محرم کے عشرہ ميں حضرت زينب اور ام کلثوم اور رباب کے بارے ميں بتاتے رہتے ہيں کہ انھوں نے يوں کيا ہے. اور بعد ميں کہہ ديتے ہيں کہ «اخرھن اللہ» اور عورتوں کي وقعت نہيں ہے. ان کے لئے آدھي ديت بھي بہت زيادہ ہے. اللہ تعالي سے پناہ مانگتے ہيں. عورتوں کو آدھي ديت اور مردوں کو پوري ديت ديني ہو گي؟!
کربلا کے حادثے کا ايک دوسرا درس يہ ہے کہ عملي طور پر حضرت ابا عبداللہ الحسين عليہ السلام نے انساني حقوق بلکہ حيوانوں کے حقوق کي بھي مراعات کي ہے. آپ عليہ السلام جب منزل «ذو حِسَم» پر پہنچے تو حکم ديا کہ دشمن کے سپاہيوں کو بھي پاني پلايا جائے، يہ سب پياسے ہيں ان کو سيراب کر ديا جائے. ان کے گھوڑوں کو بھي سيراب کيا جائے. بعد ميں فرمايا کہ ان حيوانوں کو آہستہ آہستہ پاني پلايا جائے کيونکہ ابھي سفر کر کے آئے ہيں اور بہت گرمي ہے، کہيں ان کے لئے نقصان دہ نہ ہو. لہذا ان کو آرام آرام سے پاني ديا جائے. دنيا ميں کہاں آپ کو دشمن کے بارے ميں اس قسم کي سوچ ملے گي جہاں پرانسانوں کے حقوق کي مراعات کے علاوہ حيوانوں کے حقوق کا بھي لحاظ کيا جائے؟!
عاشورا کے حادثے سے حاصل ہونا والا ايک اور درس يہ ہے کہ سب کے ساتھ شفافيت کے ساتھ پيش آيا جائے. حضرت امام حسين عليہ السلام نے کبھي بھي دھوکہ دہي سے کام نہيں ليا اور کبھي بھي خلاف واقع کوئي چيز بيان نہ فرمائي. اپنے دوستوں سے کسي چيز کو پوشيدہ نہ رکھا. ابتدا سے ہي وضاحت فرماتے رہے. ہم سب کو بھي اپني زندگي ميں اسي طرح شفافيت برتني چاہئے. اپني گھريلو زندگي ميں، اپني دوستيوں ميں، اپني طالب علمي کي زندگي ميں، حکومت ميں، سياست ميں، اقتصاد ميں، الغرض ہر جگہ پر واقعيت کو بر ملا اور صاف صاف، بغير کسي پردہ پوشي کے بتا دينا چاہئے، چاہے اس واقعيت کے نتائج ہمارے لئے بہت بھاري واقع ہوں. حضرت ابا عبداللہ الحسين عليہ السلام نے سات ذي الحجة کو بات کا آغاز فرما ديا تھا اور فرمايا: «من کان باذلاً فينا مھجتہ فليرحل معنا فاني راحل مصبحاً انشاء اللہ» ميں اپنا خون دل دينے جا رہا ہوں، ميں اپنے کليجے کا خون دينے جا رہا ہوں،ميں شہادت کا عاشق اور اس کا دلدادہ ہوں. اس چيز کا علم اور اس کي عظمت تو صرف آپ ہي جانتے ہيں يا آپ کے خدا کو. اس صورت ميں جس کا جي چاہے ميرے ساتھ آ سکتا ہے. کہيں کوئي مقام يا کوئي رياست اور منصب کي توقع نہ رکھے. اس راستے پر چلنے والوں کے لئے صرف اور صرف شہادت اور قتل ہي ہے. يہاں پر ابتدا ہي ميں حضرت امام حسين عليہ السلام نے وضاحت فرما دي. اب قافلہ چل نکلا. راستے ميں کسي شخص سے ملاقات ہو گئي جو کوفہ سے آ رہا تھا، امام عليہ السلام نے پوچھا کہ کوفہ سے کيا خبر لائے ہو؟ عرض کي کيا سب کے سامنے بتا دوں يا عليحدگي ميں عرض کروں؟ آپ عليہ السلام نے فرمايا: ہم کوئي بھي چيز اپنے صحابيوں سے پوشيدہ نہيں رکھتے «السلام عليک يا ابا عبداللہ و علي الارواح التي حلت بفنائک» فرمايا ہماري کوئي بات اپنے صحابيوں سے مخفي نہيں ہے. اس وقت اس شخص نے عرض کي کہ: ميں نے کوفہ ميں ديکھا کہ کوفي، آپ کے خاص سفير حضرت مسلم عليہ السلام اور ان کے ميزباں ھاني بن عروہ کے بے سر، لاشوں کے پاؤں ميں رسي ڈال کر، ان کي گلي کوچوں ميں بے حرمتي کر رہے تھے. ايک جنگ آور کے لئے اس قسم کي خبر بہت دردناک اور سنگين ہوتي ہے اور اس سے شکست کي نشانياں ظاہر ہوتي ہيں، ليکن اس شکست کي خبر کو مخفي نہ فرمايا. اور بعد ميں حضرت مسلم کي يتيمہ کو بلا کر اس کو پيار سے والد کي شہادت کي خبر دے کر اس کو دلاسے ديے. اس سے فرمايا کہ ميں تمہارے والد کي جگہ اور حضرت علي اکبر تمہارے بھائي کي طرح ہيں.
اب عاشور کي رات پہنچ چکي ہے. کچھ لمحوں کے لئے اپني زندگي کا حضرت ابا عبداللہ عليہ السلام کي زندگي کے ساتھ موازنہ تو کريں. اپني زندگي کو کچھ تو حضرت ابا عبداللہ عليہ السلام کي زندگي سے مشابہ بنائيں. ہم يہ نہيں کہتے کہ ہماري زندگي حضرت ابا عبداللہ عليہ السلام کي زندگي کي طرح بن سکتي ہے. ليکن کچھ تو ان جيسي بنانے کي کوشش کريں. کچھ تو وضاحت سے کام ليں اور ہميشہ پردہ پوشي ہي نہ کرتے رہيں، جھوٹ تو نہ بوليں. معاشرہ ميں موجود منکرات کي روک تھام کريں. حضرت ابا عبداللہ عليہ السلام بھي منکرات کو روکنا چاہتے تھے. ياد رکھنا چاہئے کہ اگر اس ملک ميں مہنگائي يا اقتصادي کرپشن ہے تو يہ ايک منکر ہے. اس ملک ميں غربت، بے چارگي اور نشہ، يہ سب منکرات ہيں. ان کو روکنا چاہئے. اب تو ماہ محرم ہے ان منکرات کو روکنے کے لئے کوشش کرني چاہئے. منکرات کے مصاديق صرف بدحجابي يا بے پردگي نہيں اسي طرح معروف بھي صرف نماز اور روزے ميں خلاصہ نہيں ہوتے. اس ميں کسي قسم کے شک کي کوئي گنجائش نہيں ہے کہ بے پردگي بڑے منکرات ميں سے اور گناہ ہے، ليکن صرف يہي نہيں بلکہ فقر اور غربت، مہنگائي، نشہ، بيوروکريسي و غيرہ ... بھي منکرات ہيں اور ان کو بھي روکنا چاہئے.
ہم يہ نہيں کہہ رہے کہ يہ سب چيزيں ملک ميں موجود ہيں يا موجود نہيں ہيں، بلکہ اس آيت پر استناد کرتے ہوئے کہ: «و ما علي الرسول الا البلاغ» ہم نے اس مسئلہ کو کلي طور پر بيان کر ديا ہے.
لہذا وضاحت اور شفافيت سے کام لينا چاہئے، جس طرح حضرت ابا عبداللہ عليہ السلام عاشور کي شب بھي بہت شفاف تھے. اپنے صحابيوں سے فرمايا کہ: جو بھي کل يہاں پر ہو گا، وہ مارا جائے گا. حتي کہ حضرت علي اصغر اور حضرت قاسم بھي شھيد کر ديے جائيں گے. لہذا جو بھي جانا چاہے، رات کي تاريکي ميں چلا جائے. يہ وضاحت کرنے کي اعلي حد ہے. اس کا مطلب ہے کہ آگاہانہ قدم اٹھانا چاہئے.
اے انسانو! اور اے وہ تمام لوگ جن تک آج ميري آواز پہنچ رہي ہے! اپني زندگي ميں آگاہانہ اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھاؤ. دوسروں سے پوري آگاہي اور علم کے ساتھ برتاؤ کرنا چاہئے. فکري استعمار اور دھوکہ استعمال نہيں کرنا چاہئے. ڈھکي چھپي باتيں نہ کريں. طاقتيں اور حکومتيں تو چلي جائيں گي اور حکومتوں کي عمر تو بالاخر ختم ہو ہي جائے گي، ليکن حقيقت باقي رہ جائے گي. حسين عليہ السلام اور آپ کي وضاحت باقي رہ جائے گي. امام خميني سلام اللہ عليہ اور آپ کے حقيقي پيروکار باقي رہ جائيں گے. «اما الزبد فيذھب جفائاً» کبھي کچھ ايسي باتيں سننے ميں آتي ہيں جن بہت تعجب ہوتا ہے کہ کيا اتنا جلدي ہمارے انقلاب کو دھچکا لگنے والا ہے؟ ليکن اللہ تعالي کي مدد اور عنايت سے جب تک امام خميني کے بعض حقيقي يار و مددگار موجود ہيں، جب تک عوام ميں شعور اور آگاہي موجود ہے اور جب تک جمہوريت موجود ہے، يہ چيزيں انقلاب کا کچھ نہيں بگاڑ سکتيں. آخري انتخابات ميں آپ نے ملاحظہ فرمايا کہ عوام نے کيا کہا ہے. ہميں کون سے افراد چاہيں اور کن افراد کي ان کے خلاف پروپگنڈوں کے با وجود ان کي حمايت کرتے رہيں گے.
حضرت امام حسين عليہ السلام عاشور کي رات اور عاشور کے دن واضح اور شفاف ہيں، آئيے امام حسين عليہ السلام سے يہ شفافيت سيکھ ليں.
والسلام عليکم و رحمة اللہ و برکاتہ.تاريخ: 2007/01/18 ويزيٹس: 7860