دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: قوانين کي اصلاح کا مطلب، يہ ہر گز نہيں کہ اسلام کے احکام کو ختم کيا جا رہا ہے.
مجمع تشخيص مصلحت نظام کے سربراہ حضرت آیۃ اللہ ھاشمی رفسنجانی، سے گفتگو کے دورانقوانين کي اصلاح کا مطلب، يہ ہر گز نہيں کہ اسلام کے احکام کو ختم کيا جا رہا ہے.
قوانين کي اصلاح کا مطلب، يہ ہر گز نہيں کہ اسلام کے احکام کو ختم کيا جا رہا ہے.
آية اللہ ھاشمي رفسنجاني، آپ کے مخاطب قرار ديتے ہوئے:
آزادمنشي پر مبني فتاوا، بہت سي مشکلات کو حل کرنے ميں مدد گار ہو سکتے ہيں.
حضرت آية اللہ ھاشمي رفسنجاني نے آج صبح، فقيہ عاليقدر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي اقامتگاہ پر، آپ سے ملاقات اور گفتگو کي.
گفتگو کي ابتداء ميں حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے، جناب آية اللہ ھاشمي کا قم المقدس ميں تشريف لانے پر آپ کا شکريہ ادا کيا اور آپ سے مخاطب ہوئے: «ہم آپ کو اپني شناسائي کے ابتدائي ايام سے ہي صراحت بيان سے پہچانتے ہيں اور اميد کرتے ہيں کہ يہ آپ کے بيان ميں صراحت انقلاب اور اسلامي نظام جس کے لئے آپ نے بہت صدمات بھي برداشت کيے ہيں، يوں ہي باقي رہے.
اس زمانے ميں ہم اس نتيجہ پر پہنچے تھے کہ بہترين راستہ يہي ہے کہ ايک معتبر فقيہ کے فتاوا اور اس کے نظريات جو اسلامي موازين سے مطابقت رکھتے ہوں، قانون بنانے کے لئے کافي ہوں گے
آپ نے حضرت آية اللہ ھاشمي کے آخري بيانات کي طرف اشارہ فرماتے ہوئے جن ميں روحانيت پر حملوں کے بارے ميں کہا گيا تھا، اشارہ فرماتے ہوئے، يوں فرمايا: «روحانيت پر حملے ابتداء سے ہي ہوتے رہے ہيں اور يوں ہي ہوتے رہيں گے، پہلے بھي روحانيت کے بارے ميں گندي زبان استعمال ہوتي رہي ہے. ليکن يہي روحانيت اور علماء حضرت امام خميني سلام اللہ عليہ کي ھدايات اور آپ اور شھيد مطھري جيسے علماء کي کوششوں سے، روحانيت اور علماء کو ايسي محبوبيت حاصل ہوئي، يہاں تک کے علماء کے کہنے پر اپني جانوں کا نذرانہ دينے سے بھي نہيں کتراتے تھے».
آپ نے فرمايا: «ليکن آج روحانيت اور علماء کے مقام کي حفاظت کے لئے کوششيں کرني چاہيں تا کہ حوزہ علميہ کا استقلال اور ان کي وحدت کي حفاظت کي جا سکے.»
آپ نے اپنے بيانات کے دوسرے حصے ميں مغربي ميڈيا کي اسلام اور تشيع کے خلاف وسيع پيمانے پر پروپگنڈے کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا: «آج دنيا، اسلام اور مسلمانوں کو دہشت اور دہشت گردوں کي حمايت پر متھم کرتي ہے، اور مغربي ميڈيا کا تمام پروپيگنڈا بھي اسي امر کي خدمت ميں لگا ہوا ہے. لہذا سب کا يہ فرض بنتا ہے اسلام کو ايسا روشناس کرايا جائے کہ ايک طرف سے ان کا يہ پروپيگنڈا ناکام بن جائے اور دوسري طرف سے اسلام ميں جاذبيت پيدا کر دے.»
آپ نے اس نکتہ کو بيان فرماتے ہوئے کہ مغربي دنيا کے اسلام اور تشيع کے خلاف پروپيگنڈوں کے جواب کا ايک طريقہ يہ ہے کہ بعض معاشرتي اور جزائي قوانين کي اصلاح کي جائے. آپ نے يوں فرمايا: «بعض قوانين کو اصلاح کرنے کي ضرورت ہے اور آپ کي مجمع تشخيص مصلحت نظام ميں موجودگي، اس نيک حرکت کي ابتدا کے لئے بہت مفيد ہو سکتي ہے.»
آپ نے آية اللہ ھاشمي رفسنجاني سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمايا: «ہم آپ کے خانداني اصولوں، آپ کے تقوا، آپ کے علمي مقام اور سياسي درايت پر يقين رکھتے ہيں اور اگر آج آپ اس حرکت کي ابتدا کريں گے تو انقلاب سے بھترين فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے اور خواہ ناخواہ يہ انقلاب پوري دنيا کے لئے صادر ہوتا جائے گا.»
آپ نے بعض ايسے قوانين جن ميں اصلاح اور ترميم کرنے کي ضرورت ہے کا ذکر کرتے ہوئے جن ميں ديت کے احکام، خواتين اور غير مسلم لوگوں کو قصاص کرنے کے احکام و غيرہ شامل ہيں، فرمايا: «يہ بالکل ٹھيک بات ہے کہ ہم کو اللہ تعالي کے احکام کو جاري اور نافذ کرنے ميں کسي کي ملامت سے نہيں ڈرنا چاہئے، ليکن قوانين ميں اصلاح کرنے کا مطلب يہ ہر گز نہيں کہ اسلام کے احکام کو معطل کيا جائے کيونکہ اصل ميں مھم بات يہ ہے کہ قوانين کو اسلام کے اصيل احکام سے مطابقت رکھني چاہئے نہ کہ فقھاء کے مشھور فتاوا کے مطابق، لہذا اگر کسي فقيہ کے فتوے ميں کوئي قانوني جاذبہ ہو تو اس کو تشيع اور اسلام کي حمايت کي خاطر کيا قباحت ہے کہ قانون ميں بدل ديا جائے.»
آپ نے اپني گفتگو کے اختتام ميں آية اللہ ھاشمي رفسنجاني سے اسلامي نقطہ نگاہ سے حکومت کے بارے ميں مختلف نظريات کو اکٹھا اور ان کو شائع کرنے کے لئے کہا. آپ نے فرمايا: «آپ حوزہ کے فرزند اور حوزہ سے ہي متعلق ہيں، اور کيونکہ حکومت کے مسائل سے بلاواسطہ تعلق ہے، اور غير معمولي استعداد رکھتے ہيں لہذا حکومت کے بارے ميں آپ کے فقہي نظريات کو لکھا جانا چاہئے تا کہ آئندہ نسلوں کے لئے ان کو محفوظ کيا جا سکے.»
حضرت آية اللہ ھاشمي رفسنجاني نے بھي آپ سے ملاقات کرنے پر خوشي کا اظھار فرماتے ہوئے آپ سے مخاطب ہو کر فرمايا: «ہم بھي آپ کو نيک افکار اور نيک کلام سے پہچانتے ہيں اور جو کچھ آپ نے فرمايا ہے، واقعي طور پر صحيح ہے اور معاشرہ کي ضرورت بھي ہے.»
آپ نے فرمايا: «اگرچہ ممکن ہے آج دنيا کي حکومتوں کا رويہ ہم سے ٹھيک نہ ہو، ليکن دنيا کي عوام کي نگاہوں کا مرکز ايران ہے اور سب يہ جاننا چاہتے ہيں کہ ہماري رسالت اور ہمارا پيغام کيا ہے اور يہ مسائل جن کا آپ نے ذکر فرمايا ہے، انقلاب سے پہلے بھي شھيد مطہري اور شہيد بہشتي سے ان ہي مسائل کے بارے ميں گفتگو کيا کرتے تھے کہ انقلاب کي کاميابي کي صورت ميں، فقہي نظريات کے آپس ميں اختلاف کے با وجود حکومت کو کيسے چلانا ہوگا؟»
مجمع تشخيص مصلحت نظام کے سربراہ نے فرمايا: «اس زمانے ميں ہم اس نتيجہ پر پہنچے تھے کہ بہترين راستہ يہي ہے کہ ايک معتبر فقيہ کے فتاوا اور اس کے نظريات جو اسلامي موازين سے مطابقت رکھتے ہوں، قانون بنانے کے لئے کافي ہوں گے»
آپ نے اس امر کے محقق ہونے کي راہ ميں مشکلات کے بارے ميں يوں فرمايا: «آج آپ معاشرہ ميں موجودہ فضا کو ملاحظہ فرما رہے ہيں، بعض خشک مقدس حضرات کي کوشش ہے کہ اپنے افراطي سليقوں کو حتي کہ قرآن کے محکمات پر ٹھوسنا چاہتے ہيں، ليکن حوزہ علميہ کو چاہئے کہ زيادہ سے زيادہ فقاہتي تحقيقات اور جديد نظريات لانے ميں کوشاں رہے، اور اس ميں بڑے پيمانے ميں مستقل نظري سے کام ليا جائے اور مستقل بنيادوں پر، مستند اور علمي فتاوا، ديے جائيں تو بہت سي مشکلات کو حل کرنے ميں مدد مل سکتي ہے.»
آية اللہ ھاشمي رفسنجاني، آپ کے مخاطب قرار ديتے ہوئے:
آزادمنشي پر مبني فتاوا، بہت سي مشکلات کو حل کرنے ميں مدد گار ہو سکتے ہيں.
حضرت آية اللہ ھاشمي رفسنجاني نے آج صبح، فقيہ عاليقدر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي اقامتگاہ پر، آپ سے ملاقات اور گفتگو کي.
گفتگو کي ابتداء ميں حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے، جناب آية اللہ ھاشمي کا قم المقدس ميں تشريف لانے پر آپ کا شکريہ ادا کيا اور آپ سے مخاطب ہوئے: «ہم آپ کو اپني شناسائي کے ابتدائي ايام سے ہي صراحت بيان سے پہچانتے ہيں اور اميد کرتے ہيں کہ يہ آپ کے بيان ميں صراحت انقلاب اور اسلامي نظام جس کے لئے آپ نے بہت صدمات بھي برداشت کيے ہيں، يوں ہي باقي رہے.
آپ نے حضرت آية اللہ ھاشمي کے آخري بيانات کي طرف اشارہ فرماتے ہوئے جن ميں روحانيت پر حملوں کے بارے ميں کہا گيا تھا، اشارہ فرماتے ہوئے، يوں فرمايا: «روحانيت پر حملے ابتداء سے ہي ہوتے رہے ہيں اور يوں ہي ہوتے رہيں گے، پہلے بھي روحانيت کے بارے ميں گندي زبان استعمال ہوتي رہي ہے. ليکن يہي روحانيت اور علماء حضرت امام خميني سلام اللہ عليہ کي ھدايات اور آپ اور شھيد مطھري جيسے علماء کي کوششوں سے، روحانيت اور علماء کو ايسي محبوبيت حاصل ہوئي، يہاں تک کے علماء کے کہنے پر اپني جانوں کا نذرانہ دينے سے بھي نہيں کتراتے تھے».
آپ نے فرمايا: «ليکن آج روحانيت اور علماء کے مقام کي حفاظت کے لئے کوششيں کرني چاہيں تا کہ حوزہ علميہ کا استقلال اور ان کي وحدت کي حفاظت کي جا سکے.»
آپ نے اپنے بيانات کے دوسرے حصے ميں مغربي ميڈيا کي اسلام اور تشيع کے خلاف وسيع پيمانے پر پروپگنڈے کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا: «آج دنيا، اسلام اور مسلمانوں کو دہشت اور دہشت گردوں کي حمايت پر متھم کرتي ہے، اور مغربي ميڈيا کا تمام پروپيگنڈا بھي اسي امر کي خدمت ميں لگا ہوا ہے. لہذا سب کا يہ فرض بنتا ہے اسلام کو ايسا روشناس کرايا جائے کہ ايک طرف سے ان کا يہ پروپيگنڈا ناکام بن جائے اور دوسري طرف سے اسلام ميں جاذبيت پيدا کر دے.»
آپ نے اس نکتہ کو بيان فرماتے ہوئے کہ مغربي دنيا کے اسلام اور تشيع کے خلاف پروپيگنڈوں کے جواب کا ايک طريقہ يہ ہے کہ بعض معاشرتي اور جزائي قوانين کي اصلاح کي جائے. آپ نے يوں فرمايا: «بعض قوانين کو اصلاح کرنے کي ضرورت ہے اور آپ کي مجمع تشخيص مصلحت نظام ميں موجودگي، اس نيک حرکت کي ابتدا کے لئے بہت مفيد ہو سکتي ہے.»
آپ نے آية اللہ ھاشمي رفسنجاني سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمايا: «ہم آپ کے خانداني اصولوں، آپ کے تقوا، آپ کے علمي مقام اور سياسي درايت پر يقين رکھتے ہيں اور اگر آج آپ اس حرکت کي ابتدا کريں گے تو انقلاب سے بھترين فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے اور خواہ ناخواہ يہ انقلاب پوري دنيا کے لئے صادر ہوتا جائے گا.»
آپ نے بعض ايسے قوانين جن ميں اصلاح اور ترميم کرنے کي ضرورت ہے کا ذکر کرتے ہوئے جن ميں ديت کے احکام، خواتين اور غير مسلم لوگوں کو قصاص کرنے کے احکام و غيرہ شامل ہيں، فرمايا: «يہ بالکل ٹھيک بات ہے کہ ہم کو اللہ تعالي کے احکام کو جاري اور نافذ کرنے ميں کسي کي ملامت سے نہيں ڈرنا چاہئے، ليکن قوانين ميں اصلاح کرنے کا مطلب يہ ہر گز نہيں کہ اسلام کے احکام کو معطل کيا جائے کيونکہ اصل ميں مھم بات يہ ہے کہ قوانين کو اسلام کے اصيل احکام سے مطابقت رکھني چاہئے نہ کہ فقھاء کے مشھور فتاوا کے مطابق، لہذا اگر کسي فقيہ کے فتوے ميں کوئي قانوني جاذبہ ہو تو اس کو تشيع اور اسلام کي حمايت کي خاطر کيا قباحت ہے کہ قانون ميں بدل ديا جائے.»
آپ نے اپني گفتگو کے اختتام ميں آية اللہ ھاشمي رفسنجاني سے اسلامي نقطہ نگاہ سے حکومت کے بارے ميں مختلف نظريات کو اکٹھا اور ان کو شائع کرنے کے لئے کہا. آپ نے فرمايا: «آپ حوزہ کے فرزند اور حوزہ سے ہي متعلق ہيں، اور کيونکہ حکومت کے مسائل سے بلاواسطہ تعلق ہے، اور غير معمولي استعداد رکھتے ہيں لہذا حکومت کے بارے ميں آپ کے فقہي نظريات کو لکھا جانا چاہئے تا کہ آئندہ نسلوں کے لئے ان کو محفوظ کيا جا سکے.»
حضرت آية اللہ ھاشمي رفسنجاني نے بھي آپ سے ملاقات کرنے پر خوشي کا اظھار فرماتے ہوئے آپ سے مخاطب ہو کر فرمايا: «ہم بھي آپ کو نيک افکار اور نيک کلام سے پہچانتے ہيں اور جو کچھ آپ نے فرمايا ہے، واقعي طور پر صحيح ہے اور معاشرہ کي ضرورت بھي ہے.»
آپ نے فرمايا: «اگرچہ ممکن ہے آج دنيا کي حکومتوں کا رويہ ہم سے ٹھيک نہ ہو، ليکن دنيا کي عوام کي نگاہوں کا مرکز ايران ہے اور سب يہ جاننا چاہتے ہيں کہ ہماري رسالت اور ہمارا پيغام کيا ہے اور يہ مسائل جن کا آپ نے ذکر فرمايا ہے، انقلاب سے پہلے بھي شھيد مطہري اور شہيد بہشتي سے ان ہي مسائل کے بارے ميں گفتگو کيا کرتے تھے کہ انقلاب کي کاميابي کي صورت ميں، فقہي نظريات کے آپس ميں اختلاف کے با وجود حکومت کو کيسے چلانا ہوگا؟»
مجمع تشخيص مصلحت نظام کے سربراہ نے فرمايا: «اس زمانے ميں ہم اس نتيجہ پر پہنچے تھے کہ بہترين راستہ يہي ہے کہ ايک معتبر فقيہ کے فتاوا اور اس کے نظريات جو اسلامي موازين سے مطابقت رکھتے ہوں، قانون بنانے کے لئے کافي ہوں گے»
آپ نے اس امر کے محقق ہونے کي راہ ميں مشکلات کے بارے ميں يوں فرمايا: «آج آپ معاشرہ ميں موجودہ فضا کو ملاحظہ فرما رہے ہيں، بعض خشک مقدس حضرات کي کوشش ہے کہ اپنے افراطي سليقوں کو حتي کہ قرآن کے محکمات پر ٹھوسنا چاہتے ہيں، ليکن حوزہ علميہ کو چاہئے کہ زيادہ سے زيادہ فقاہتي تحقيقات اور جديد نظريات لانے ميں کوشاں رہے، اور اس ميں بڑے پيمانے ميں مستقل نظري سے کام ليا جائے اور مستقل بنيادوں پر، مستند اور علمي فتاوا، ديے جائيں تو بہت سي مشکلات کو حل کرنے ميں مدد مل سکتي ہے.»تاريخ: 2007/02/09 ويزيٹس: 5528