دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: «متعہ» ایک رسمی نکاح ہے. بلکہ متعہ صرف ضرورت کے تحت خاص شرائط میں ایک خاص قسم کا نکاح ہے.
انڈونیشیا سے آئے ہوئے وفد کی آپ سے ملاقات«متعہ» ایک رسمی نکاح ہے. بلکہ متعہ صرف ضرورت کے تحت خاص شرائط میں ایک خاص قسم کا نکاح ہے.
ہماری نظر کے مطابق، شیعہ مذہب اس چیز کا قائل نہیں ہے کہ «متعہ» ایک رسمی نکاح ہے. بلکہ متعہ صرف ضرورت کے تحت خاص شرائط میں ایک خاص قسم کا نکاح ہے. اسی طرح، پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر، دوسری شادی بھی مذموم اور غیر اصولی عمل ہے چاہے وہ رسمی شادی ہی کیوں نہ ہو. دوسری شادی اگر پہلی بیوی کی رضایت حاصل کیے بغیر انجام پائے تو حرام بھی ہے اور باطل بھی.
سنہ 1383شمسی، گرمیوں کے سیزن کے آخری دن، انڈونیشا کے ایک بلند مرتبہ وفد، جس میں پارلیمنٹ کے تین نمائندے، دو فقیہ، تین صحافی، اسلامک انسٹیٹیوٹ آف انڈونیشیا کے صدر اور اقوام متحدہ کے بینک کی طرف سے انڈونیشیا میں متعین نمائندہ نے قم میں جدید سوچ رکھنے والے فقیہ، حضرت آیة اللہ العظمی صانعی، سے ملاقات کی. اس ملاقات میں ایڈز کی مہلک بیماری سے معاشرتی اور کلچرل طریقے سے مقابلہ کرنے کے بارے میں گفتگو کی گئی.
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے اس وفد کا جو ایک بیماری کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے حتی کہ دوسرے شعبہ ہاے زندگی سے منسلک افراد کے ساتھ تبادل آراء کرتے ہیں، کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: میرا آپ لوگوں کے سامنا بات کرنا جو ہر ایک خاص علم میں مہارت رکھتے ہیں بہت مشکل کام ہے. لیکن اس کے با وجود سب پر واضح ہے کہ کسی بھی بیماری جیسا کہ ایڈز کی روک تھام اور اس کے لئے تلاش اور سعی کرنا، اسلام میں پسندیدہ عمل ہے. اور ایسے کاموں کو معاشرے میں ایک عادت اور ایک تھذیب کے طور پر اجاگر کرنا چاہئے.
آپ نے قرآن کریم کی اس آیت «کنتم خیر امة اخرجت للناس، تأمرون بالمعروف و تنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: نیکیاں اور خوبیاں، صحیح تھذیب اور نیکی پر مبنی دراز مدت کام، ہمارے معاشروں میں ایک کلچر کی صورت میں پھیلنے چاہئیں اور اس راہ میں کسی قسم کے جبر یا اکراہ سے کام نہ لیا جائے. قرآن کریم نے کبھی بھی ہم سے یہ چیز طلب نہیں کی کہ لوگوں پر ظلم اور جبر اور ان کی ایذیتیں کر کے ان کو امر بالمعروف کیا جائے. کیونکہ گناہ کر کے اور لوگوں پر ظلم کر کے کبھی بھی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی.
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے اس نکتے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے کہ کبھی بھی آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جا سکتا، بلکہ آگ کو بجھانے کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے، فرمایا: میں دنیا کے تمام علماء اور دانشوروں سے یہ درخواست کروں گا کہ میرے اس دینی نقطہ نظر پر توجہ فرمائیں کہ امر بالمعروف (نیکی کی طرف بلانا) اور نہی از منکر (برائی سے روکنا)، نرمی اور نیکی کے ساتھ ہونا چاہئے. کہیں ایسا نہ ہو کہ نیکی کی طرف دعوت دینا خود جبر اور اکراہ سے یا دوسروں کو نقصان پہنچا کر ہو. اور یہی ڈیموکریسی کی اصل حقیقت ہے.
آپ نے فرمایا کہ آج ہمیں سب پر واضح کر دینا چاہئے کہ دین مبین اسلام میں ایک انسان کی مدد کرنا اور اس کی مشکل کو حل کرنا، نیک کام اور صدقہ ہے اور اس کی ایک روشن مثال یہی ایڈز کی بیماری کی روک تھام کا کام ہے. آپ نے فرمایا کہ ہمیں اس کام میں کامیابی کی امید رکھنی چاہئے. یہی ہمارا یہاں پر ایک جگہ جمع ہو کر ایک دوسرے سے تبادل آراء کرنا خود خداوند کریم کے لطف کی نشانی ہے.
کسی بھی بیماری جیسا کہ ایڈز کی روک تھام اور اس کے لئے تلاش اور سعی کرنا، اسلام میں پسندیدہ عمل ہے. اور ایسے کاموں کو معاشرے میں ایک عادت اور ایک تھذیب کے طور پر اجاگر کرنا چاہئے.
آپ اس سوال کے جواب میں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے پر ایران میں کس حد تک عمل ہو چکا ہے؟ یوں فرمایا: امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ابھی تک قانونی کوئی لائحہ عمل پارلیمنٹ میں پاس نہیں ہوا ہے اور بعض وقتی کام جو خاص افراد کی طرف سے انجام پاتے ہیں وہ بھی کافی نہیں ہیں. ایڈز کے بارے میں ہیلتھ کے سرکاری ادارے بہت کوششیں کر رہے ہیں اور میڈیا بھی عوام تک معلومات پہنچانے اور ان کو آگاہی دینے کے لئے سرگرم عمل ہیں.
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے اپنے بیانات کے آخری حصے میں فرمایا کہ: دینی علماء کا اس سلسلے میں یہ فرض بنتا ہے کہ عوام کو اس بیماری کے مفاسد اور خطرات سے آگاہ کریں.
آپ نے شیعہ مذہب میں «متعہ» کے بارے میں اور اس کا ایڈز کی بیماری کی روک تھام یا اس بیماری کے پھیلاؤ سے تعلق کے بارے میں یوں فرمایا: ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اگر اسلام اور تشیع کی صحیح اور نیک طریقے سے تشریح کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو دنیا کے بہت سارے لوگ فلاح پا جائیں گے. ہمارے استنباط کے مطابق شیعہ مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ متعہ کوئی رسمی عقد (یعنی رسمی نکاح) نہیں ہے، بلکہ ضرورت کے مطابق خاص موارد میں اس کی اجازت دی گئی ہے. دوسری شادی بھی اگر پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر انجام پائے تو یہ بھی مذموم اور ناپسندیدہ عمل ہے چاہے رسمی طور پر شادی ہی کیوں نہ کی جائے. دوسری شادی اگر پہلی بیوی کی رضایت حاصل کئے بغیر انجام پائے تو حرام اور باطل ہے.
والسلام تاريخ: 2005/10/04 ويزيٹس: 5790