Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: انٹرويوز
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: اسلام کے قوانین عدل و انصاف پر مبنی ہیں. اور اسلام میں کہیں کوئی ظلم موجود نہیں ہے
آپ کا ایران کے «مجلہ زنان» سے انٹرویو اسلام کے قوانین عدل و انصاف پر مبنی ہیں. اور اسلام میں کہیں کوئی ظلم موجود نہیں ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال. جناب آیة اللہ صانعی، عورت اور مرد کی دیت کی برابری کو بیان کرنے کی اصلی وجہ کیا تھی؟

جواب. شیعہ مذہب میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے. اور اسی وجہ سے امام خمینی رحمة اللہ علیہ کے بقول، ایک بہت غنی اسلامی تہذیب ہے. انسانوں کو ہمیشہ اس کی فکر رہتی ہے اور جاننا چاہتے ہیں کہ اسلام نے ان کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا ہے.
ایک دن تھا جب ہمارے شیعہ فقہاء بہت محدود مسائل کو مطرح کیا کرتے تھے. اور جب ان سے پوچھا جاتا تو وہ فوراً امام معصوم علیہ السلام کی زبان سے موجود روایت کو بیان فرما دیتے تھے. اس زمانے میں اتنے فروعات انسان کے مورد ابتلا نہیں تھے. لیکن ائمہ معصومین علیھم السلام نے پہلے سے ہی سوچا تھا کہ بہرحال انسان ترقی کی راہ پر گامزن ہے. لہذا شواہد اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود ائمہ معصومین علیھم السلام نے اجتھاد کا راستہ کھلا رہنے کے لئے اقدامات فرمائے ہیں. اور ایسے قواعد و ضوابط وضع کیے ہیں کہ جن کو مد نظر رکھتے ہوئے مذہب شیعہ کے علمی اور فقہی مراکز ہر زمانے کے مسائل کا جواب دے سکیں.
نتیجتاً آپ کا یہ سوال شاید دس ہزار یا اس سے بھی زیادہ مسئلوں اور فروعات کی طرف لوٹتا ہے جو شیعہ کی فقہی تاریخ میں پہلے موجود نہیں تھے لیکن بعد میں پیدا ہوئے ہیں. سادہ الفاظ میں یہ کہ، آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے ٤٢ سال پہلے جدید مسائل کو پیش فرماتے ہیں. یعنی مثال کے طور پر انسان کا چاند پر جانے کے مسائل، کُر کے پانی کا وزن کا مسئلہ، چاند پر مسافر کا نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا. انشورنس یا بیمے کے مسائل، چیک اور سفتہ (اشٹام) کی خرید و فروش اور اسی طرح تمام ایسے مسائل جن سے آج کل ہمارے واسطہ پڑتا ہے جبکہ کل تک ان میں سے کسی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی.
تو آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ کام علمی اور فقہ و فقاہت کے مراکز میں طبیعی ہے کہ مستحدثہ مسائل یعنی ایسے مسائل جو کل تک مورد ابتلاء نہیں تھے لیکن آج ان کی ضرورت کو محسوس کیا جاتا ہے، ان کی تحقیق کر کے ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے. صرف عورت اور مرد کی دیت کی برابری کا مسئلہ صرف مدنظر نہیں ہے. ہم نے کئی سالوں سے دسیوں اور مسائل کی بھی تحقیق کی ہے. ہم نے تقریباً تیس سال قبل اپنے درس خارج میں جو حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے صحن مبارک میں ہوا کرتا تھا، اس میں عورت کے قاضی ہونے کے بارے میں اپنا نظریہ بیان کیا. اس وقت ہم نے اعلان کیا تھا کہ عورت بھی قاضی بن سکتی ہے. اور کھہ رہے ہیں کہ عورت کو حق ہے کہ اپنے لئے اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے کام انتخاب کرے اور اس میں شریعت کے لحاظ سے کوئی حرج نہیں ہے.

سوال. کچھ ایسے موارد جو آپ نے فرمائے ہیں ان کے بارے میں فقہ شیعہ میں پہلے سے کوئی مخالفت نہیں تھی، لیکن عورت اور مرد کی دیت کی برابری کے بارے میں تو معتبر روایتیں موجود ہیں جو ان دونوں کی دیت میں فرق کو ظاہر کرتی ہیں. آپ کا ان روایات کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟
جواب. آپ کی اس فرمایش کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ایسے مورد میں جہاں بعض فقہاء نے ایک روایت کے مطابق فتوا دیا ہو یا تمام فقہاء نے بعض روایات کے مطابق فتوا دیا ہو تو دوسروں کو اس کے خلاف اظہار نظر کرنے کا حق نہیں ہے. اور یہ تو وہی باب اجتہاد کے بند ہونے پر دلالت کرتا ہے. یہ صحیح ہے کہ روایات بھی موجود ہیں اور فقہاء نے فتوے بھی دیے ہیں، لیکن اجتہاد کی راہ کھلی ہے اور دوسرا کوئی فقیہ بھی مسائل کی تحقیق کر سکتا ہے اور بالکل وہی فقہی رویے کو اختیار کر کے اور ان ہی فقہی طریقوں کو اپناتے ہوئے، دوسرے مسائل بیان کر سکتا ہے.
ہم چاہتے ہیں کہ حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں. زمین کے اندر موجود منابع کے بارے میں سب فقہاء نے بحث کی ہے اور فتوے دیے ہیں کہ وہ تمام منابع اور ذخیرے، زمین کے مالک کے ہوں گے. اب آئے فرض کیجئے کہ ایک آدمی کے پاس ایسی زمین ہے جس میں تیل یا فولاد یا پیتل کی کان ہے. حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کا نظریہ یہ تھا کہ ایسے منابع حکومت اور بیت المال مسلمین کی ملکیت ہیں، نہ اس شخص کے. حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کا یہ فتوا تھا حالآنکہ دوسرے سب فقہاء نے تفصیلی طور پر اس مسئلے پر بحث کی ہوئی تھی.
ہمارے فقہ میں ایسے بہت سے مسائل موجود ہیں جن کو بعض فقہاء نے فرمایا ہے لیکن دوسروں نے ان کے بعد آ کر ان کے خلاف فتوا دیا ہے چاہے وہ پہلے مسائل روایات میں ہی کیوں نہ ائے ہوئے ہوں. لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام تحقیق فقہی طریقے سے انجام پائے.

سوال. آپ نے ان فتووں اور روایات کا کیسے جواب دیا ہے؟

جواب. یہ بحث ایک عام گفتگو اور غیر علمی بات چیت کی حد سے بہت گہری ہے. (یہ جگہ اس بحث کو چھیڑنے کے لئے مناسب نہیں ہے). اس کو علمی مراکز اور دینی مدارس میں دقت سے تحقیق کی ضرورت ہے. میں نے ان علمی مراکز میں دقت کی ہے اور جلد ہی انشاء اللہ کتاب کی صورت میں «کتاب القصاص» کے نام سے شایع ہو گی جو مدرسہ فیضیہ میں ہمارے خارج کے دروس کا مجموعہ ہے. یہ میرے اپنے لئے حجت اور دلیل ہے اسی لیے میں عذر رکھتا ہوں اسی طرح جو میرے مقلد ہوں گے ان کے لئے بھی یہ عذر اور دلیل ہے. لیکن ممکن ہے دوسروں کو یہ بات پسند نہ آئے.
ہمارے ہاں دو قسم کی دیت ہے : ایک «حقوقی» اور دوسری «جزائی» دیت. جزائی دیت وہ ہوتی ہے جہاں قصاص کا مقام ہو لیکن دیت دینا چاہیں. جزائی دیت کی بحث کو یہاں نہیں چھیڑتے. حقوقی دیت ایسے موارد میں ہوتی ہے جہاں پر مثال کے طور پر کسی ایکسیڈنت یا کسی حادثے میں کوئی مرد ایک عورت کو مار دیتا ہے، یا کوئی عورت دوسری عورت کو مار دیتی ہے. ہم نے یہاں پر جناب آیة اللہ مقدس اردبیلی کی بحث کی طرف اشارہ کیا ہے جو فرماتے ہیں کہ : «ما اطلعت علیہ من نص» (میں نے ایک روایت بھی اس بارے میں نہیں پائی). (مجمع الفائدہ و البرھان، ج ١٩، ص ٣١٣). وہ روایتیں جن کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے وہ قصاص کے باب میں ہے. نہ کہ حقوقی دیت کے سلسلے میں. حقوقی دیت کے باب میں بھی ایسی کوئی روایت نہیں جو یہ کہتی ہو کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کی آدھ ہے. یہ فقہاء کا کام تھا جو قصاص کی روایات کو حقوقی دیت کے باب میں لے آئے ہیں.
تو جناب مقدس اردبیلی کے قول کے مطابق اس بارے ایک روایت بھی موجود نہیں ہے. بلکہ فقہاء نے قصاص کے باب کی روایات کو یہاں پر سرایت دی ہے. یہ فقہاء کا اجتہاد تھا. آپ وسائل الشیعہ کی جلد نمبر ١٩ صفحہ نمبر ١٥١ کو ملاحظہ فرمائیے. جو ہمارے ہاں بحار الانوار اور وافی جیسی تین جوامع حدیثی کتابوں میں سے ایک ہے. وہاں پر ایک علیحدہ باب میں جس کا یہی عنوان ہے کہ «عورت کی دیت، مرد کی دیت کا آدھا حصہ ہے»، تمام روایات جو جمع کر کے وہاں بیان کی ہیں ان کی تعداد صرف چار روایتیں ہیں. ان میں سے دو روایتیں (یعنی اس بارے میں موجود تمام روایتوں میں سے آدھی روایتیں) اس باب کے عنوان سے بالکل متعلق نہیں ہیں بلکہ عمدی قتل اور جزئی دیت سے متعلق ہیں. (حدیث نمبر ٢ اور ٤) اور ان میں سے ایک حدیث یعنی پہلی حدیث، مطق ہونے کی وجہ سے (نہ کہ ظہور لفظی کی بنا پر) حقوقی دیت کو بھی شامل ہے. اگرچہ یہاں پر بھی اسی روایت کا ذیلی حصہ جزائی دیت کی بحث سے متعلق ہے. اس کے علاوہ جہاں پر اطلاق کا مسئلہ آ جائے تو وہاں پر مخاطب کے لحاظ سے قدر متیقن کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے. لیکن اس حدیث کا اصلی مسئلہ اس کی سند ہے جس میں تین اشکال ہیں جن کو اس روایت کی اصلی جگہ یعنی(کتاب القصاص) کے غیر عمدی قتل کے باب میں ہم نے بیان کیا ہے. اس روایت پر اعتماد نہیں کیا سکتا ہے. چار حدیثوں میں سے صرف ایک حدیث باقی رہ گئی یعنی تیسری حدیث جو صحیحہ ہے. لیکن اس حدیث کا ذیلی حصہ دوسری روایات کے ساتھ منافی ہے، اس حصہ پر عام طور پر عمل نہیں کیا جاتا. اس روایت کا ذیلی حصہ اس کی ابتدا کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے (یعنی اس روایت کے ابتدائی حصے پر عمل کرنے سے بھی روک سکتا ہے). اس کے علاوہ اس حدیث کا صرف غیر عمدی قتل کے بارے میں ہونے کے بارے میں بھی کچھ اشکالات ہیں جو اپنی جگہ پر بیان کیے جا چکے ہیں.
وسائل الشیعہ میں اس باب سے متعلق موجود روایات کے بارے میں اس بہت ہی مختصر توضیح سے پتہ چلتا ہے کہ مقدس اردبیلی (قدس سرہ الشریف) کو حضرت امام علی علیہ السلام کے حرم اور نجف میں باب العلم کے جوار میں رہتے ہوئے، کیا کیا برکتیں اپنی عمر میں حاصل کی ہیں. اور ابوالائمہ حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے ان پر کتنے احسانات ہوئے ہیں.

سوال. براہ کرم! جزائی اور حقوقی دیت کے بارے میں تھوڑا تفصیل سے بتائیے؟

جواب. فقہاء کے درمیان یہ مشہور ہے کہ اگر کسی مرد نے کسی عورت کو قتل کر دیا ہو اور اگر اس کے وارث (اولیاء دم) اس کا قصاص لینا چاہیں تو پہلے قاتل کو دیت کا آدھا حصہ دیں گے پھر اس کو قصاص کی سزا دی جائے گی.
یا مثلاً جسم کے کسی حصے کے کاٹنے کے بارے میں، عورت کی دیت مرد کے برابر ہے یہاں تک کہ جسم کے اعضاء کے تیسرے حصہ تک پہنچ جائے. اس کے بعد دیت آدھی ہو جاتی ہے. اس باب کی روایات بھی جزائی دیت کے بارے میں ہیں. ایک اور مورد اعضاء کا قصاص ہے جہاں اگر کسی عورت کے جسم کے کسی حصے کے کاٹنے کے مقابلے میں، مرد کا وہ حصہ کاٹنا چاہیں تو دیت کی کچھ مقدار مرد کو دینا ہوتی ہے.
تو ایک دیت حقوقی ہوتی ہے جہاں ضمانت اور خسارت کا جبران کرنا ہوتا ہے لیکن اس کے کئے ہوئے کام کی کوئی سزا نہیں ہوتی ہے. اگر کوئی شخص اکسیڈنت میں کسی دوسرے آدمی کے قتل کا باعث بنتا ہے تو اس شخص کو قاتل نہیں کہا جائے گا. فی حد نفسہ قتل کرنے کی کوئی سزا نہیں ہوتی کیونکہ معنوی عنصر یعنی جنابت اس میں موجود نہیں تھی اور وہ شخص اسے قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا.
ہم نے جزائی قوانین میں تعزیرات (جرمانوں) کو رکھا ہے. اگر کسی کے پاس ڈرائیونگ کرتے وقت لائسنس نہ ہو یا اور کوئی جرم کیا ہو تو اس کے لئے کچھ سزائیں مقرر ہیں. لیکن کیونکہ یہ قتل عمدی (جان بوجھ کر) نہیں تھا، اس میں جنایت (ظلم) کا عنصر موجود نہیں تھا. اور اس کے باطن میں جرم کا عنصر موجود نہیں تھا. لہذا یہ جرم قتل نہیں مانا جائے گا. بلکہ خسارت ہے. (جسے جبران کیا جائے گا). اس مسئلہ(یعنی حقوقی دیت) کے باب میں جیسا کہ پہلے بیان کر چکے ہیں کوئی معتبر روایت موجود نہیں.

سوال. تو پھر فقہاء نے کس بنا پر عورت کی دیت کو مرد کی دیت کا آدھا حصہ بتا یا ہے؟

جواب. ان حضرات نے جزائی دیت کی روایات سے حقوقی دیت کا استفادہ کیا ہے اور ان کو یہ حق پہنچتا تھا کہ یوں استفادہ کریں، اور ان کا یہ استفادہ بھی اجر سے خالی نہیں ہوگا اور ان کے پاس عذر بھی ہے. لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بھی ان ہی کی تبعیت کریں. ہم نے اس قسم کی برداشت کو قبول نہیں کیا ہے، جیسا کہ مقدس اردبیلی نے بھی فرمایا ہے کہ اس باب میں ایک روایب بھی نہیں ملی ہے. یعنی جبران خسارت کی دیت کے باب میں ایک روایت بھی موجود نہیں ہے. جب گذشتہ سالوں میں ہم مطالعہ کرتے تھے تو ہمیں تعجب ہوتا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حقوقی دیت کے بارے میں مقدس اردبیلی کو ایک روایت بھی نہیں ملی، حالآنکہ اتنی روایات موجود ہیں. لیکن بات اصل میں یہی تھی کہ ہماری نظر بھی ان جزائی دیت والی روایات پر تھی. اس کے اگلے سال ہی ہم نے شرح ارشاد کے حاشیہ میں لکھا کہ مقدس اردبیلی صحیح فرماتے ہیں، اور وہ سب روایات جزائی دیت کے بارے میں ہیں حالآنکہ مقدس اردبیلی حقوقی دیت کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور وہ اس چیز کو نہیں مانتے کہ ان روایات سے حقوقی دیت کی طرف رجوع کیا جائے اور فرماتے ہیں کہ اس دیت کی بارے میں خاص طور پر روایات موجود نہیں ہیں.
اس وقت ہم تفصیل نہیں بتا سکتے کہ جزائی دیت کے بارے میں ہم نے کس طرح جواب دیا ہے کہ یہ روایتیں خود اپنے متعلقہ موارد میں بھی حجیت نہیں رکھتیں چہ جائیکہ عمدی (جان بوجھ کر) قتل کرنے کے مورد سے غیر عمدی مورد کی طرف سرایت کی جائے. صرف اجمالی طور پر اتنا بتاتے ہیں کہ ہماری نظر میں جزائی دیت کی روایات، قرآن سے مخالفت رکھتی ہیں اور جو روایت بھی قرآن سے مخالفت رکھتی ہو وہ حجیت نہیں رکھتی.
روایات میں خاص شرائط کو لحاظ کیا جاتا ہے. وہ باتیں (روایات) جو حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا یا ائمہ معصومین صلوات اللہ علیھم اجمعین سے نقل ہوئی ہیں، اگر قرآن کریم یا مسلم اصول و ضوابط کے مخالف ہوں یا فطری اور بدیھی عقل سے مخالفت رکھتی ہوں تو وہ معتبر نہیں ہوں گی اور ہم کو چاہئے کہ ان پر عمل نہیں کریں.
ہم ایسی روایات کو ظلم سمجھتے ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا اور اب اس کے خون کے مالک اس مرد کو مارنا چاہیں تو ان کو چاہیے کہ دیت کا آدھا حصہ پہلے مرد کے اولیاء کو ادا کریں، لیکن اس کے بر عکس ایسا نہیں ہے. یعنی اگر کوئی عورت کسی مرد کو مار دے تو آسانی سے اس کو بغیر کسی چیز کے دیے قصاص کر دیا جائے گا.
ہماری نظر میں اس کا، ان قرآنی آیات کے ساتھ کوئی تطابق نہیں ہے جو کہتی ہیں کہ «اسلام کے قوانین عدل و انصاف پر مبنی ہیں. اور اسلام میں کہیں کوئی ظلم موجود نہیں ہے». ہماری اس نظر کی وجہ قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ «یا ایھا الناس انا خلقنا کم من ذکر و انثی و جعلنا کم شعوباً و قبائل لتعارفوا» (حجرات/١٣). یہ آیت انسانوں کے حقوق کی برابری کے لئے سب سے بہتر آیت ہے. ہم اس تبعیض کو عادلانہ فرق نہیں بلکہ اس کو ظلم سمجھتے ہیں.
یہ ہمارا نظریہ ہے اور ایسا نظریہ رکھنے کے لئے میں معذور ہوں (حق بجانب ہوں اور اس پر مجھ سے کوئی مؤاخذہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ ہمارا اجتھاد ہے). ہم اس تبعیض کو ظلم سمجھتے ہیں. اور اس قسم کی روایات جتنی بھی زیادہ ہوں، ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا. جیسا کہ بعض جگہ کہا جاتا ہے کہ اس موضوع میں مثلاً سینکڑوں روایات موجود ہیں، مثال کے طور پر قرآن کریم میں تحریف ہونے کے بارے میں. یا سھو النبی کے بارے میں جو روایات موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ (نعوذ باللہ) حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اشتباہ یا خطا سر زد ہو سکتی ہے، لیکن (ان روایات کی کثرت کے با وجود) تقریباً ہمارے تمام فقہاء ان روایات کو عقل اور قرآن کریم کا مخالف سمجھتے ہیں، اور ان کو رد کرتے ہیں. فقہاء میں سے صرف ایک یا دو کا یہ نظریہ نہیں ہے. اس موضوع سے ملتی جلتی دوسری ایسی کئی جگہیں ہیں جو اب ان کا ذکر ضروری نہیں ہے.
تو اصلی ضابطہ ہمارے لئے یہ ہے کہ روایات صدقاً اور عدلاً قرآن سے مخالفت نہ رکھتی ہوں. اور ہم نے ان روایات کو قرآن کریم کی ان آیات سے موازنہ کیا ہے جو یہ فرماتی ہیں کہ اسلام کے قوانین عدالت پر مبنی ہیں. اور عدالت ایک مسلم اصل ہے جو اصول دین میں سے ہے نہ کہ فروع دین میں سے، اور ان روایات کو قرآن کا مخالف پایا ہے.
تاريخ: 2002/12/03
ويزيٹس: 5131





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org