دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: اگر لوگ ملکی امور میں شریک ہوں اور تبدیلیوں اور اصلاحات میں مؤثر کردار ادا کریں تو ان کے حقوق پامال نہیں ہوں گے.
جرمنی میں چھپنے والے اخبار دی سائٹ کے صحافی اولریش لاڈورنر کا آپ سے انٹرویواگر لوگ ملکی امور میں شریک ہوں اور تبدیلیوں اور اصلاحات میں مؤثر کردار ادا کریں تو ان کے حقوق پامال نہیں ہوں گے.
جدید تفکرات رکھنے والے شیعہ مرجع، حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے ١٩ آذر سنہ ١٣٨٣ شمسی کے مطابق جرمنی کے دی سایٹ اخبار کے صحافی جناب اولریش لاڈورنر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کے سوالوں کا جواب دیا. آپ نے ایرانی معاشرے میں تبدیلی اور عوام کے دین کے بارے میں نظریات میں تبدیلی اور خاص طور پر انقلاب کی پہلی نسل کی حکومت سے ناراضگی کے بارے میں فرمایا:
کلی طور پر ہر ایسی تبدیلی جو عوام کو انقلابی حرکتوں سے بدظن کرے، نقصان دہ ہے. یہ تبدیلیاں مخالف جہت میں ہونی چاہیں (عوام کو انقلاب اور حکومت سے خوش بین کریں). جب عوام اپنی حکومت کی سرکردہ شخصیات سے اسلام اور دین کے نام پر قانون کے خلاف حرکات مشاہدہ کرتے ہیں تو ان سے بدبین ہو جاتے ہیں. جبکہ حقیقی اسلام کی طرف جو آزادی اور عدالت و انصاف کو اپنا عنوان بناتا ہے اور عوام کے حقوق کو بہت محترم سمجھتا ہے، بہت راغب ہو جاتے ہیں اور دین کو پوری شناخت کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں.
ایسا لگتا ہے کہ انقلاب کی پہلی نسل کی تھکاوٹ اور ناراضگی بہت گہری اور بنیادی نہیں ہے بلکہ وقتی اور آج کے حالات سے متعلق ہے. کیونکہ دیکھتے ہیں کہ بعض وعدوں پر عمل نہیں ہو رہا. اور بہت سے عہدہ دار و مناصب پر فائض لوگ ان کے ساتھ صادقانہ برتاؤ نہیں کرتے. حالانکہ حضرت امام خمینی (رح)، شھید بہشتی، اور شھید رجائی جیسی شخصیات اگر حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہوتے تو ان میں نشاط اور شادابی واپس لوٹ آتی. آج ہماری عوام مسائل کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ باہر کی طاقتیں صرف اور صرف اپنے منافع کے در پی ہیں اور کوئی بھی محروم اقوام کے بارے میں مخلص نہیں ہے.
آیة اللہ العظمی صانعی نے اس نکتے کی تأکید کرتے ہوئے کہ اسلامی دنیا میں موجود ظلم اور تبعیض میں حقیقی اسلام اور عوام کا کوئی دخل نہیں ہے اور یہ سب حکومتوں کی وجہ سے ہو رہا ہے، فرمایا:
اگر لوگ اپنے ملک کے فیصلوں میں دخالت کریں اور تبدیلیوں اور اصلاحات میں مؤثر کردار ادا کریں تو ان حقوق زیادہ پامال نہیں ہوں گے. جب بھی عوام آگے آئے ہیں، اپنے حقوق کو حاصل کیا ہے اور اپنے مطالبات کو منوایا ہے.
آپ نے تأکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام انسانی حقوق اور متعالی ارزشوں کا حامی ہے. آپ نے صراحتاً فرمایا کہ : البتہ یہ مشکل بھی موجود ہے کہ کبھی اہل سنت کے علماء، بعض غیر ارزشی چیز کو ارزش والی چیز بنا کر پیش کرتے ہیں. اور یہ چیز خطرناک ہو سکتی ہے، چنانچہ بعض اوقات مثلا انسانوں کے قتل کو ثواب کے طور پر پیش کرتے ہیں. دہشتگردی کو اچھی چیز سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام میں دہشتگردی کو محکوم کیا گیا ہے.
آپ کو چاہئے کہ اسلامی اقدار کو حضرت امام خمینی (سلام اللہ علیہ) کی زندگی میں ملاحظہ فرمائیں جو شاہ کے خلاف اپنے مبارزات میں کبھی بھی اسلحہ نہیں اٹھایا تھا اور کبھی کسی کو مارنے کے لئے حکم نہیں دیا. بہر حال اگر حکومتیں چاہیں کہ ظلم نہ ہو تو ظلم کو بہت کم کیا جا سکتا ہے.
اس گفتگو کے آخری حصے میں حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے دی سائٹ کے صحافی کے دو سوالوں کا جواب دیا جو سلمان رشدی اور ایران کی ایٹمی توانائی سے متعلق تھے. آپ نے فرمایا: سلمان رشدی کا مسئلہ تو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور یہ کہ کسی بھی دینی عقیدے کی توہین کرنا جائز نہیں ہے اور اس کو اپنے کیے ہوئے کام کی سزا ملنی چاہئے.
ایٹمی بمب رکھنا ایرانی عوام کے نفع میں نہیں ہے اور اسلامی عقائد اور تعلیمات سے بھی متضاد ہے، تا ہم ایٹمی توانائی اور ایٹمی ٹیکنالوجی اگر صلح آمیز مقاصد کے لئے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے. تاريخ: 2004/12/09 ويزيٹس: 4986