دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی (مدظلہ): امام خمینی سے دشمنی کی جڑیں بہت پرانی ہیں.
موسسہ تنطیم و نشر آثار حضرت امام خمینی (سلام اللہ علیہ) کے اہل کاروں کی آپ سے ملاقاتحضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی (مدظلہ): امام خمینی سے دشمنی کی جڑیں بہت پرانی ہیں.
آج کل کے حالات میں ایک ہی تنظیم تمام طاقتوں پر قبضہ کیے ہوئے ہے؛ یہ کیوں نہیں بتاتے کے امام خمینی کے زمانے میں ایسا نہیں ہوا کرتا تھا؟ یہ کہہ دو کہ اس زمانے میں ایسا نہیں تھا لیکن ہم ایسا کرنا چاہتے ہیں. امام خمینی سے اپنی نسبت جوڑ کر ایسے کاموں سے پرہیز کرنا چاہئے.
حضرت امام خمینی کہ اکیسویں برسی اور پندرہ خرداد کے حادثے کے قریب آنے کے ایام میں، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار حضرت امام خمینی (س) (قم برانچ) کے اہل کاروں نے حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی کے ساتھ ملاقات کی.
اس ملاقات میں حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی نے حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: امام خمینی (سلام اللہ علیہ) کے ساتھ میری عقیدت کے بارے میں آپ سب کو علم ہے اور یہ جو آپ نے امام کے سلسلے میں مجھ پر عنایت کی ہے اس کا میں بہت شکر گزار ہوں. ایک دن آپ کے اس نشر آثار کی قیادت ایک مبارز، آگاہ اور مجتہد فرد یعنی مرحوم آقا حاج احمد خمینی [امام کے خمینی کے فرزند] کے ہاتھ میں تھی اور آج ان کے عظیم فرزند نے یہ عہدہ سنبھال لیا ہے. خود آپ تمام بزرگان بھی صاحب فضیلت و کمال ہیں. جب اتنے عظیم مرکز، کو اتنے عظیم انسان چلا رہے ہوں تو یقیناۡ اچھا چل رہا ہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی اسی نہج پر چلتا رہے گا.
آپ نے اس مؤسسہ پر ڈالے جانے دباؤ اور تنقیدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ “اما الزبد فیذھب جفائاۡ‟ (پانی کے اوپر آنے والی جھاگ ختم ہو جائے گی) یہ تحریفات، تہمتیں، افترائات اور بے انصافیاں ختم ہو جائیں گی اور ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب، جنھوں نے یہ تمام کام کیے ہیں، نادم ہوں گے اور، اگلی دنیا سے پہلے، اسی دنیا میں بھی آپ کے آگے گھٹنے ٹیک کر آپ سے معافی مانگے گے.
حضرت آیت اللہ العظمی صانعی نے فرمایا: تاریخ گواہ ہے کہ نا انصافی کرنے والوں کو سزا ضرور ملتی ہے، یہ کبھی نہیں ہوا کہ ظالم کو اس کے کیے ہوئے ظلم کا انجام نہ ملا ہو، کسی صورت بھی وہ اپنے ظلم کا نتیجہ ضرور دیکھے گا، لیکن ہمیں صبر کرنا ہو گا اور امید رکھنی ہو گی. ہمیں یاد ہے جب [سنہ ۱۳۴۲شمی میں شاہ ایران کی طرف سے] فیضیہ پر حملہ کیا گیا تھا اور اس میں کئی جانوں کا بھی نقصان ہوا تھا، حضرت امام خمینی (س) نے اسی دن اس حادثے کے بعد فرمایا تھا: “ھنیئاۡ لکم‟ [تم کو مبارک ہو] پھر فرمایا تھا: یہ ظلم اپنے آخری سانس لے رہے ہیں.
آپ نے مزید فرمایا: امام خمینی (س) نے جب یہ جملہ فرمایا تھا اس کے پندرہ سال بعد اسلامی انقلاب ہوا. کئی سو آدمی زندانوں میں شکنجوں کی وجہ سے شہید ہوئے، کئی سو افراد اسیر ہو کر قیدخانوں میں بند کر دیے گئے. یہ سب قیمتی سرمایہ تھے جو ختم کر دیا گیا. بازاروں کو بند کیا جاتا تھا اور انقلاب کے اصلی ارکان کو گرفتار کیا جاتا تھا لیکن امام خمینی (س) فرماتے تھے: “ھنیئاۡ لکم‟ یہ سب تم کو مبارک ہو، ان لوگوں کے آخری سانس ہیں.
اس مرجع تقلید نے آگے انقلاب کے بارے میں ایک واقعہ سناتے ہوئے فرمایا: مرحوم آیت اللہ ربانی شیرازی (قدس اللہ نفسہ الزکیہ) کا شمار ایسے مستحکم افراد میں سے ہوتا تھا جن کا صبر و تحمل بہت مشہور تھا. جب ہم نے شہید قدوسی جو زندان میں تھے، ان سے دریافت کیا کہ قید خانے میں کس کا صبر زیادہ ہوا کرتا تھا؟ تو آپ نے فرمایا تھا: مرحوم ربانی نے قیدخانے میں بہت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ مشہور ہو چکا تھا کہ آپ کے محاسن کا ایک ایک بال نوچا کرتے تھے لیکن آپ اپنی بات پر ڈٹے رہا کرتے تھے، جب آپ کو رہا کیا گیا، اور اس کے بعد مرحوم حاج آقا مصطفی خمینی کی وفات کے بعد جب مظاہرے ہوئے اور لوگوں کو مارا پیٹا گیا اور ان کو شہید بھی کیا گیا تو کچھ دوستوں نے مرحوم ربانی شیرازی کے خدمت میں عرض کی کہ: لوگوں کو مارا جا رہا ہے. آپ نے فرمایا: نہیں، یہ صرف ڈرانے کی ایک تدبیر ہے. پھر عرض کی گئی کہ: ہم خود ان کے جنازوں کو اٹھا کر دفن کرنے کے لئے لے گئے ہیں. پھر بھی آپ نے فرمایا: یہ سب ڈرانے کے حربے ہیں.
آپ نے فرمایا: جہاد کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ ہمیشہ پر امید ہو کر بات کی جائے اور اللہ تعالی نے بھی انسان کو امید کی نعمت سے نوازا ہے؛ دیکھا جائے تو پوری تشیع امید کی بنا پر زندہ و جاری ہے اور وہ ہے قائم بر حق حضرت حجت (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظہور کی امید. ہم سب کو حضرت مہدی موعود (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے آنے اور فرزند پیغمبر کی عادلانہ حاکمیت کی امید ہے تا کہ ایک دن یہ شیعہ قوم، عدالت، انسانیت اور انسان کا احترام اور اس کی کرامت کو بھی دیکھ سکے.
حضرت آیت اللہ العظمی صانعی نے فرمایا: سختیوں کے سامنے صبر و تحمل کی ضرورت ہے، البتہ ممکن ہے کچھ افراد آقا سید حسن خمینی [حضرت امام خمینی (س) کے پوتے] کے علمی مقام کو گھٹا کر دکھانے کی کوشش کرنا چاہتے ہوں، یہ وہی کام ہے جو خود حضرت امام خمینی (س) کے بارے میں بھی کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ امام خمینی کو تو فقہ بالکل نہیں آتی، وہ تو صرف فلسفہ جانتے ہیں.
آپ نے مزید فرمایا: جب امام خمینی زندان میں تھے، ایک خطیب کو لایا گیا تھا تا کہ اس زمانے کے حالات کو تبدیل کیا جا سکے، مشہور تھا کہ وہ اچھا خطیب ہے، اور اس کی بہت تبلیغ کی جاتی تھی. اس خطیب کو بھی اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ امام خمینی (س) کی شخصیت کو کمزور کرے، اسی وجہ سے وہ اپنی تقریر میں کہا کرتا تھا کہ: امام خمینی کا اخلاق بہت اچھا ہے. یعنی امام کو فقہ کی سوجھ بوجھ نہیں. لیکن ہر ایک نے دیکھا کہ اللہ تعالی نے آپ کو کتنی عظمت و طاقت دی تا کہ اپنے تمام دشمنوں پر غالب آ سکے. تاريخ: 2010/05/29 ويزيٹس: 8004