دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: دہشت گرد جھنم کي تہ ميں ہيں.
آپ کا CNN کے ساتھ انٹرویودہشت گرد جھنم کي تہ ميں ہيں.
آج دنيا ميں بہت سے ايسے واقعات رونما ہو رہے ہيں جو حضرت امام زمانہ (عج) کے ظھور کي نشانياں ہيں.
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے CNN کي صحافي کريسٹن امانپور سے ملاقات کے دوران فرمايا: آج دنيا ميں بہت سے ايسے واقعات رونما ہو رہے ہيں جو حضرت امام زمانہ (عج) کے ظھور کي نشانياں ہيں.
آپ نے فرمايا: حضرت امام مھدي عليہ السلام جن کے ظھور کے ہم منتظر ہيں، ايسے موعود ہيں جن کے زمانے ميں ظلم و ستم کي کوئي نام و نشان نہ ہو گا اور واقعي جمہوريت محقق ہو گي. تمام انسان ايک دوسرے کے ساتھ ہوں گے، اور پوري انسانيت، واقعي طور پر انسان کہلانے کے حقدار ہوں گے اور آج بھي بہتر يہي ہو گا کہ عيسائيت اور اسلام (ديني اور مذھبي منافرت) کي باتوں کو چھوڑ کر، انسان اور انساني کرامت کے بارے ميں بات کريں. کيونکہ اللہ تعالي نے انسان کو کرامت اور احترام سے تخليق فرمايا ہے، اسي ليے بہتر يہي ہے کہ انسانيت کے اعلي اقدار کے بارے ميں بات کي جائے جس کا تمام اديان اور تمام فرقوں نے اعتراف کيا ہے.
آپ نے بعض ايسي علامات جن کو «علائم الظھور» کے عنوان سے ياد کيا جاتا ہے، کي طرف اشارہ فرماتے ہوئے، تاکيد فرمائي کہ: دو عظيم عالمي جنگوں کے بعد، اقوام متحدہ کے منشور کي تدوين، اور اس کے بعد انساني حقوق کا دفاع کرنے والي بين الاقوامي تنظيميں جيسے ہيومن رائٹس يا جنگي جرائم ميں ملوث افراد کے لئے خاص عدالتوں و غيرہ کا وجود ميں آنا، يہ سب پوري انسانيت ميں اتحاد اور يگانگي برقرار کرنے کے لئے ہيں.
آپ نے فرمايا: ہم ان تمام آرگنائزيشنز اور تنظيموں کي کارکردگي کي صحت يا غلطي کے بارے ميں بات نہيں کر رہے ليکن ہمارے يہ عقيدہ ہے کہ ايک طرف سے اسلام پوري انسانيت کے لئے احترام کا قائل ہے اور اس سلسلے ميں مسلمان، يہودي، زرتشتي، مادہ پرست، حتي کہ ايک مارکسيسٹ ميں جب تک کہ وہ حق کو تسليم کرتے ہوں اور عقيدتي دشمني پر نہ اتر آئيں، ان تمام ميں کوئي فرق نہيں ہے. اور دوسري طرف سے ان تمام تنظيموں کي تشکيل اور انسانيت کا جنگ سے تنفر اور آزادي اور عدالت کي حمايت کرنا، يہ تمام چيزيں باعث بن سکتي ہيں کہ تمام انسانوں کي سوچ کے افق ايک دوسرے کے قريب تر ہوتے چلے آئيں تا کہ انسانيت کے حقوق ميں وحدت حاصل ہو سکے اور ہمارے عقيدہ کے مطابق يہ وحدت حضرت امام زمانہ (عج) کے زمانے ميں ضرور محقق ہو گي. لہذا اگر روايات ميں ملتا ہے کہ جب حضرت امام زمانہ (عج) تشريف لائيں گے تو انسانوں کے عقول اور ان کي سوچ مکمل ہو جائے گي تو اس کا معني يہي ہے جب انسانوں کي سوچ ميں ترقي آئے گي تو جنگ، خشونت کے مخالف ہوں گے اور صلح، آزادي اور عدالت کے حامي بن جائيں گے اور يہ سب حضرت امام زمانہ (عج) کے تشريف لانے کے لئے مقدمات فراہم کريں گے.
اس سوال کے جواب ميں کہ مغرب ميں بعض لوگ اسلام کو افراطي اور دہشتگردي کا حامي معرفي کيا جاتا ہے، جب آپ اس قسم کے نظريات کے بارے ميں سنتے ہيں تو ايک مرجع تقليد ہونے کے عنوان سے آپ کے احساسات کيا ہوتے ہيں؟ آپ نے فرمايا: ہميں بہت افسوس ہوتا ہے کہ مغرب ميں اسلام کے بارے ميں يوں سوچا جاتا ہے. وہ اسلام جو پورا عدالت اور عطوفت ہے، جب دہشت کا حامي بتايا جاتا ہے بہت افسوس کا مقام ہے.
آپ نے فرمايا: اسلام ہميں حتي کہ ايک چھوٹي سي چيونٹي کو پاؤں کے نيچے مسلنے کي اجازت نہيں ديتا اب ايسي صورت ميں کيسے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام دہشت اور دہشت گردي کا حامي ہے. ہم نے اپنے تمام بين الاقوامي ميڈيا سے انٹرويوں ميں مکرراً کہا ہے اسلام دہشت اور دہشت گردي کا مخالف ہے ليکن کيا کر سکتے ہيں جبکہ بہت بڑي تبليغي طاقتيں دہشت گردوں کے حق ميں تبليغ کرتي ہيں اور ہماري آواز کو دنيا تک پہنچنے نہيں ديتيں.
آپ سے پوچھے گئے ايک سوال کے بارے ميں جو افراطي ٹولوں اور دہشت گردوں کي کاميابي کے بارے ميں پوچھا گيا تھا، آپ نے فرمايا: کبھي نہيں، کيونکہ انسانيت اس قبل کہ اپني عقلانيت کي پابند ہو، اپني عواطف اور جذبات کي پابند ہے، اور دہشت گردي کا جذبات سے کوئي ناطہ نہيں ہے. انسان، قاتلوں کے مخالف ہيں، لہذا يہ ٹولہ کبھي بھي ترقي نہيں کر سکتا. مثال کے طور پر آج کوئي بھي معاشرے ميں علي الاعلان يہ نہيں کہہ سکتا کہ ميں دہشت اور دہشت گردي کا حامي ہوں. ہاں البتہ اس نکتے کو نہيں بھولنا چاہئے کہ اپنے حقوق سے دفاع کرنے اور دہشت گردي ميں بہت فرق ہے.
مرجع عاليقدر نے مزيد فرمايا: ہم مکرراً کہہ رہے ہيں کہ اگر اسلام کو پہچاننا چاہتے ہيں اور اگر يہ جاننا چاہتے ہيں کہ اسلام دہشت گردي کي حمايت کرتا ہے يا نہيں، عصر حاضر کے بہترين مسلمان، انقلابي ترين اور عارف ترين مسلمان يعني حضرت امام خميني سلام اللہ عليہ کي سيرت کا جائزہ لينا چاہئے جنھوں نے اپني تحريک کے پورے دور ميں کبھي بھي عسکري مقابلے کي حمايت نہيں کي اور کسي بھي فرد کو دہشت گردي کا نشانہ بنانے کي اجازت نہيں دي.
آپ نے تاکيد فرمائي کہ: ہم نے کئي بار تنقيد کي ہے اور دہشت گردي کي کلي طور پر مذمت کي ہے. کيونکہ اسلام کي نظر ميں ايک انسان کو قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے، حتي کہ وہ لوگ جو خودکش حملوں سے لوگوں کا قتل کرتے ہيں، وہ لوگ جھنم کي تہ ميں ہيں اور اس سلسلے ميں کہيں کوئي شک کي گنجائش نہيں ہے، ليکن کيا کيا جا سکتا ہے کہ آج کي دنيا اسلام کو دہشت گرد کے عنوان سے جاننے لگي ہے اور دہشت گردي کي حمايت کا الزام لگايا جاتا ہے.
آپ نے اسلام اور جمہوريت ميں تضاد کے بارے ميں پوچھے گئے ايک سوال کے جواب ميں فرمايا: «اسلام جمہوريت کے عين مطابق ہے، کيونکہ جمہوريت کا مطلب يہي ہے کہ تمام انسانوں کے حقوق کا خيال رکھا جائے اور اسلام ميں کيس کے حق کو بھي ضايع نہيں کيا گيا ہے. اگر کہيں پر کوئي نقص يا کہيں پر کوئي تخلف نظر آتا ہے تو يہ اسلام کے قوانين کو جاري اور اجرا کرنے کے سلسلے ميں ہے. تاريخ: 2007/02/01 ويزيٹس: 10738