Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: انٹرويوز
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: خودکش حملہ کرنے والے شخص کی موت خودکشی کی موت ہے (حرام موت ہے، نہ کہ شہادت)
بی بی سی کی نامہ نگار مس ھریسن کی آپ سے ملاقات اور گفتگو خودکش حملہ کرنے والے شخص کی موت خودکشی کی موت ہے (حرام موت ہے، نہ کہ شہادت)
ایسے دھماکے اور خودکش حملے جو میدان جنگ کی بجائے شھر کی گلی کوچوں اور سڑکوں پر ہوتے ہوں اسلام کی نظر میں بہت بڑا گناہ ہیں جو بخشش کے قابل نہیں ہیں. خودکش حملہ کرنے والا شخص کی موت خودکشی کی موت ہوگی (جو حرام ہے) اور اسی طرح کئی دوسرے بے گناہ لوگوں کو قتل بھی کیا ہے جو ان سے کا گناہ، خودکش حملہ آور کے ذمے ہو گا. حقوقی نقطہ نگاہ سے ان تمام لوگوں کے خون کی دیت کا ذمہ دار بھی وہی شخص ہوگا. اگر اس دنیا میں وہ اس کی تلافی نہ کر سکے گا تو دوسری دنیا میں اس کا حساب و کتاب خود اسی شخص کو چکانا ہو گا. ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اس قسم کے خودکش حملوں میں، ایک تو خودکشی کا گناہ اور دوسرا بے گناہ لوگوں کے قتل کرنے کا گناہ بھی اس کے ذمے ہو گا.
آیة اللہ یوسف صانعی کے انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق اور جمہوریت کی حمایت اور اسی طرح انسانی جانوں کے محترم ہونے کے بارے میں خاص اور نئے نظریات سے، شیعہ فقہ میں انسانی حقوق کے لئے ایک نیا باب کھلنے جا رہا ہے. آپ نے بی بی سی کی نامہ نگار سے گفتگو کے دوران اس سوال کے جواب میں کہ خودکش حملہ اور استشہادی (شہادت طلبی) کے حملوں میں کیا فرق ہے؟ آپ نے فرمایا: استشہادی حملے جو جنگ کے میدان میں ہوتے ہیں اور خودکش حملے اور دہشت گردی جو شہر میں ہو رہی ہے، ان دونوں کی مثال روشنی اور اندھیرا اور حق اور باطل کی ہے. ان دو کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا؛ استشہادی حملہ جنگ کے زمانے سے مختص ہے اور اپنے سامنے والے دشمن کے مقابلے میں ہوتا ہے لیکن میدان جنگ سے باہر کوئی بھی استشہادی اور دہشت گردی والے حملوں یا قتل کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور اس کا کوئی جواز بھی نہیں ہے، بلکہ یہ خودکشی ہو گی اور اسلام میں دوسرے لوگوں کا قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے. میدان جنگ سے باہر کسی خودکش حملہ آور نے اگر ایک انسان کا قتل بھی کیا تو ایسا ہوگا جیسے اس نے سب انسانوں کو قتل کیا ہے.
آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ میدان جنگ میں استشہادی حملہ، سب عقلاء کی نظر میں تائید شدہ فعل ہے اور اس سے آگاہی اور اس پر راضی ہوتے ہوئے ایک شخص اس کو انجام دیتا ہے. آپ نے تأکید فرمائی: میدان جنگ سے ہٹ کر، شہر کے گلی کوچوں میں ہونے والے دھماکے اور خودکش حملے، اسلام کی نگاہ میں بہت بڑا گناہ ہے جو بخشنے کے قابل نہ ہوگا. خودکش حملہ آور خود تو خودکشی کا مرتکب ہوا ہے اور اسی طرح دوسرے لوگوں کو قتل کیا ہے، اور ان سے لوگوں کے قتل کے گناہ کا ذمہ دار بھی ہوگا، اسی طرح قانونی لحاظ سے وہ ان تمام مرنے والے افراد کی دیت کا ضامن بھی ہوگا. اگر اس دنیا میں وہ اس کو جبران نہ سکے گا تو دوسری دنیا میں اس کا حساب و کتاب اسی شخص کو دینا ہوگا. یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ایسے شخص پر ایک تو خودکشی کا عذاب لکھا جائے گا اور دوسرا یہ کہ اس کو کئی بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کا عذاب بھی دیا جائے گا.
اسلام میں خودکش حملوں کی مذمت ہوئی ہے اور یہ حق حیات کے مخالف ہیں. اسلام نے حتی کہ حیوانات کو مارنے یا ان کو جلانے کی اجازت نہیں دی ہے. دوسرا یہ کہ اس قسم کے خودکش حملے ان قراردادوں اور ان پیمان ناموں کے برخلاف ہیں جو انسانوں نے اپنی فطرت کی زبان اور اپنے دلوں کے ذریعہ ایک دوسرے سے باندھی ہیں کہ ایک دوسرے کو قتل نہیں کریں گے، تو اس لحاظ سے بھی یہ حملے منع ہیں اور حرام ہیں.
حضرت آیة اللہ صانعی نے یہ تصریح کرتے ہوئے کہ جو شخص دہشت گردی یا دھماکے کرتا ہے اور ایسے بے گناہ معصوم بچوں کو جو زندگی اور نشاط کے در پے ہوتے ہیں ان کو مار دیتا ہے یا ایسے معصوم شیرخوار بچوں کو قتل کر دیتا ہے، یا جوانوں اور بوڑھوں کو اپنی زندگیوں سے محروم کر دیتا ہے، ایسا شخص انسان نہیں ہے اور درندہ حیوانوں سے زیادہ خطرناک ہے.
آپ نے لندن کے دھماکوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرمایا: وہ سب قابل مذمت اور قاتل ہیں. لہذا کوئی بھی ان کے فعل کی توجیہ نہ کرے. خاص طور پر یہ توجیہ کرنا ایسے اشخاص کی طرف سے نہیں ہونی چاہئے جو خود کبھی ایسے دہشت گردی کے حملوں کی بھینٹ جڑھ چکے ہوں. ہمارا عقیدہ ہے کہ اس بارے میں کسی قسم کی توجیہ کرنا (دہشت گردوں کے فعل کو صحیح دکھانے کی کوشش کرنا)، اس جرم اور اس گناہ میں مشارکت ہو گی.
اس شیعہ فقیہ نے اپنی کلام کے دوسرے حصے میں تاکید فرمائی: سب کو کوشش کرنی چاہئے کہ دہشت گردی کے بارے میں موجود سب اہل نظر کی نظریات کو جمع کر کے، ایسے لوگوں تک پہنچائی جائیں جن کی اس طرف توجہ نہیں ہے. یہ صحیح ہے کہ مظلوم کا حق بنتا ہے کہ ظلم کو روکنے کی کوشش کرے لیکن نہ یہ کہ جس طرح سے بھی ہو چاہے آشوب اور دوسروں کے قتل کرنے سے.
حضرت امام خمینی (سلام اللہ علیہ) نے انقلاب کے دوران خود آپ نے کبھی بھی حتی کہ ایک بار بھی دہشت گردی اور عسکری طریقہ سے لڑنے کی اجازت نہیں دی، آپ قائل تھے کہ انقلاب کو کلچر کو صحیح کرنے سے آگے بڑھنا چاہئے.
آپ نے تاکید فرمائی کہ ظلم سے مقابلہ کرنا آزادی اور دوسروں کو آگاھی دینے پر مبتنی ہونا چاہئے اور دہشت پھیلانے سے کوئی مشکل حل نہیں ہوگی کیونکہ ایسے کاموں سے کوئی گہری اور دیرپا تحریک نہیں ہوتی. آپ نے شیعہ کا دہشت گردی سے تجربہ اور اس بارے میں شیعہ نظریہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ: اسلامی تاریخ میں دو بڑے حادثے سب سے واضح دلیل ہیں کہ شیعہ دہشت گردی کا مخالف ہے اور شیعہ لوگ اس سے متنفر ہیں. پہلا واقعہ شیعوں کے پہلے امام حضرت امام علی (علیہ السلام) کا قتل ہے جو عبدالرحمن بن ملجم مرادی کے ہاتھوں، حالت نماز میں اور مسجد کے اندر شھید ہوئے. حضرت علی (علیہ السلام) عدالت اور انصاف کی نشانی تھے اور ایسے شخص کے ہاتھوں قتل ہوئے جو حضرت علی (علیہ السلام) کے قتل پر ایمان اور یقین رکھتا تھا، یہ دہشت گردی کا ایسا واقعہ ہے جو شیعوں کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ اس سے نفرت کرتے ہیں.
دوسرا واقعہ، حضرت امام حسین (علیہ السلام) کا قیام اور آپ کے کوفہ کی طرف سفیر جناب مسلم بن عقیل کا فعل ہے. جب مسلم بن عقیل، ھانی بن عروہ جو امام حسین (علیہ السلام) کے صحابیوں میں سے تھے، کی عیادت کے لئے ان کے گھر پر تشریف لے گئے تو وہاں پر عبیداللہ بن زیاد کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا. اگر عبیداللہ بن زیاد مارا جاتا تو بنی امیہ کے تمام منصوبوں پر پانی پھر جاتا اور امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے صحابی کبھی بھی قتل نہ ہوتے. حتی کہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا قتل (عبیداللہ بن زیاد کا قتل) تاریخ کا رخ بدل سکتا تھا. لیکن عین منصوبہ پر عمل کے وقت، جناب مسلم بن عقیل نے اس کام سے اجتناب کیا ہے اور حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے ایک روایت کو نقل فرمایا کہ : «ان الایمان قید الفتک» (ایمان دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا). اللہ پر ایمان اور یقیں رکھنا، مسلمان کو دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا.
اب ہمیں بہت افسوس ہو رہا ہے کہ آج کل کے حالات نے ایسا رخ اختیار کیا ہے کہ ایسے سادہ سے اسلامی مسئلہ کے لئے اتنا ٹائم لگانا پڑ رہا ہے.
آپ نے اس گفتگو کے دوسرے حصے میں فلسطین کے وقائع کے بارے میں فرمایا کہ ہمارے اور آپ کے نظریات کبھی بھی فلسطینیوں کا کام نہیں آئیں گے، کیونکہ ان کے پاس خود ایسے صاحب نظر و فکر اشخاص موجود ہیں جن کے ساتھ وہ مشاورت کرتے ہیں. آپ نے فرمایا: بہ ہر حال ہم امید کرتے ہیں کہ یہ سب مسائل گفتگو کے ذریعہ حل کئے جائیں تا کہ دونوں طرف سے بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع نہ ہوں اور صہیونسٹ بھی اپنی جنایات سے باز رہیں.
تاريخ: 2005/11/19
ويزيٹس: 11917





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org